• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علم کسی کی میراث نہیں، چاہئے امیر ہو یا غریب اس پر سب کا حق ہے۔ اسے وہی حاصل کرتا ہے جس میں لگن، شوق اور جذبہ ہو، کچھ کر دکھانے کا آگے بڑھنے کا، اپنے حالات بدلنے کا، جو زندگی میں آنے والی مشکلات سے ڈرنے کی بجائے ان کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوجائے۔ 

ایسا کچھ انٹر کامرس میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے انس حبیب نے بھی کر دکھایا۔ 19 اکتوبر کو جب اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کے تحت انٹر بورڈ کامرس ریگولر گروپ کے نتائج کا اعلان ہوا تو کسی کو معلوم نہ تھا کہ 43 ہزار سے زائد طلباء میں سے ایک غریب اخبار فروش محمد حبیب کا ہونہار بیٹا انس حبیب 88 فیصد نمبر حاصل کرکے سب کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ 

بلاشبہ انس نے یہ ثابت کر دکھایا کہ قابلیت پیسے کی محتاج نہیں ہوتی، نہ صرف مہنگے کوچنگ سینٹر جانے والے بچے نمایاں کارکردگی دکھا سکتے ہیں، بلکہ محنت اور لگن سے ہر ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے اور وہ سب حاصل کیا جاسکتا ہے جس کا گمان بھی مشکل ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مشکل حالات اور مالی مسائل، آگے بڑھنے کی راہ میں روکاوٹ ضرور بن سکتے ہیں لیکن ان روکاوٹوں کو عبور کرنے والا ہی کام یاب ہوتا ہے۔ 

وہ نوجوان جو محنت اور لگن کے ساتھ ساتھ ماں باپ کی قربانیوں کا بھی احساس رکھتے ہیں تو کام یابی ان کے قدم چومتی ہے۔ انس حبیب ان میں سے ایک ہے۔

سر اُٹھا کر جینا چاہتا ہوں
اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کے تحت انٹر کامرس ریگولر گروپ کے نتائج کا اعلان کیا گیا، اس موقع پر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء کا چیئرمین بورڈ پروفیسر انعام محمد، سیکریٹری بورڈ زرینہ راشد اور قائم مقام ناظم امتحانات شجاعت ہاشمی کے ساتھ گروپ

انس حبیب کی کام یابی کی خبر ہر اخبار کی زینت بنی، کسی نے صفحہ اوّل پر جگہ دی تو کسی نے بیک پیج پر نمایاں شائع کیا۔ بیٹے کی کام یابی نے والدین کا سر بلند کر دیا۔ دوست احباب کے علاوہ اخباری اور ٹی وی نمائندوں کا انس کے گھر تانتا بندھ گیا۔ 

نمبروں کی دوڑ میں سب آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے۔ انس حبیب کے بارے میں جاننے کی جستجو ہمیں بھی تھی، ہم نے انس سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا تو اُس نے انتہائی دھیمے لہجے میں کہا، میں آپ سے ضرور بات کروں گا، فی الحال صبح سے شام تک میری تعلیمی مصروفیات ہیں۔ 

چند دن بعد بات کرلیں۔ اور پھر کام یابی کے چند دن بعد ہماری انس سے تفصیلی بات چیت ہوئی، گفتگو کے دوران ہمیں اندازہ ہوا کہ، انس کے عزائم بہت بلند ہیں۔ اس کی ننھی ننھی آنکھوں میں بڑے بڑے خواب ہیں، وہ انہیں پورا کرنا چاہتا ہے۔ اُس نے کیسے محدود وسائل کے باوجود ہمت نہ ہاری، محنت و لگن سے پہلی پوزیشن حاصل کر کے ثابت کر دیا کہ محنت رائیگاں نہیں جاتی۔ ہمارے سوالوں کے جواب میں انس نے کیا کہا، یہ جاننے کے لیے آپ بھی ہماری گفتگو میں شامل ہوں۔

جنگ) سب سے پہلے ہماری طرف سے نمایاں کام یابی پر مبارک باد وصول کریں۔ گفتگو آگے بڑھانے سے پہلے ہمیں اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں بتائیں؟

انس حبیب) میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہوں، تین بہنیں ہیں، جو مجھ سے بڑی ہیں۔ دو نے گریجوئشن مکمل کیا ہے، جب کہ ایک نے انٹر۔ والدہ گھریلو کام کاج کے ساتھ محلے کی خواتین کے لیے سلائی کڑھائی کا کام کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہنوں کے ساتھ مل کر محلے کے بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتی ہیں۔ والدہ نے انٹر تک تعلیم حاصل کی ہے، جب کہ والد نے بی کام کیا ہے، مناسب ملازمت نہ ہونے کے باعث گزشتہ45 برسوں سے کراچی کے علاقے صدر ایمپریس مارکیٹ کے سامنے اخبارات اور رسالوں کا اسٹال لگا رہے ہیں۔ والدین کی خواہش ہے کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کروں۔ میں ان کی خواہش پوری کرنا چاہتا ہوں۔

جنگ) ابتدائی تعلیم کس اسکول سے حاصل کی؟

انس حبیب) میٹرک ’سینٹ مور پبلک اسکول‘ سے سائنس میں کیا، کیوں کہ اُس وقت والدین چاہتے تھے کہ میں ڈاکٹر بنوں، میٹرک میں84 فیصد نمبر حاصل کیئے تھے۔ لیکن بعدازاں میں نے محسوس کیا کہ میں زندگی میں جو کرنا چاہتا ہوں وہ ڈاکٹر بن کر نہیں کرسکتا، دن بہ دن کمزور ہوتی ملکی معیشت، ہمارے معاشرے کے بگڑتے حالات اور روزبروز بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو مدنظر رکھتے ہوئے کامرس فیلڈ کا انتخاب بہتر سمجھا۔ مجھے لگتا ہے کہ، اس شعبے میں کام کرکے میں ملک کی خدمت کر سکتا ہوں۔ اسی لیے میں نے اپنے والدین کی خواہش کے خلاف جاکر کامرس کا انتخاب کیا، مگر والدین نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ 

میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ مجھے کبھی اپنے فیصلے پر پچھتانا پڑے، اس لیے دن رات ایک کر کے خوب محنت کی تاکہ اپنا فیصلہ درست ثابت کرسکوں۔ مالی وسائل اتنے نہیں تھے کہ والدین کالج کے ساتھ کوچنگ کے اخراجات برداشت کرسکیں، اس لیے کبھی کوچنگ نہیں گیا اور نہ ہی کبھی ضرورت محسوس ہوئی، کالج کے بعد شام میں چار سے پانچ گھنٹے اور رات میں دو سے تین گھنٹے پڑھتا، صرف چار گھنٹے سوتا تھا۔

جنگ) مستقبل کے حوالے سے کیا منصوبہ بندی ہے، کیا بننا چاہتے ہیں؟

انس حبیب) میں نے کامرس کا انتخاب اس لیے کیا کہ، میں ملک میں سود سے پاک بینکنگ کا نظام لانا چاہتا ہوں۔ ابھی میں اپنے ہی کالج سے سی اے ( چارٹرڈ اکاؤنٹینسسی) کر رہا ہوں، جس کا دسمبر میں امتحان ہے۔ اس کے ساتھ بی کام یا بی بی اے کرنے کا بھی ارادہ ہے۔ نیز سی ایس ایس کا امتحان بھی دینا چاہتا ہوں، تاکہ حکومتی نظام کا حصّہ بن کر اپنا مقصد حاصل کرسکوں۔ 

میں ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہتا ہوں اسی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سی اے اور سی ایس ایس کا انتخاب کیا ہے، مجھے امید ہے کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرسکوں گا۔

جنگ) گھریلو اور تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے کبھی جزوقتی ملازمت کرکے والد کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کی یا ذاتی اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیوشن پڑھائی؟

انس حبیب) جی نہیں، میں نے کبھی ٹیوشن نہیں پڑھائی، کیوں کہ مجھے اپنی پڑھائی سے وقت ہی نہیں ملتا تھا۔ نیز والد نے بھی شدید بُرے حالات کے باوجود بھی مجھے کبھی جزوقتی ملازمت کی اجازت نہیں دی، ان کا کہنا تھا کہ میں اپنی تمام تر توجہ صرف پڑھائی پر مرکوز کروں، لیکن کبھی کبھار والدہ اور بہنوں کی مدد کرنے کے لیے اُن کے ٹیوشن کے بچوں کو پڑھا دیا کرتا تھا۔ 

جہاں تک بات تعلیمی اخراجات کی ہے، مجھے کالج کی جانب سے اسکالرشپ ملی تھی، جو کہ میٹرک کے نتائج کی بنیاد پر پچیس سے تیس فیصد فیس معافی کی صورت میں حاصل ہوئی، یہ اسکالرشپ کسی بھی ہونہار طلباء کو ان کے میٹرک کے نتائج کی بنیاد پر ملتی ہے۔ 

میرا تعلق میمن کمیونٹی سے ہے، اُن کی جانب سے بھی اسکالپرشپ ملی تھی، جس کی وجہ سے میرے تعلیمی اخراجات کا ایک بڑا حصّہ پورا ہوجاتا تھا۔ باقی میری والدہ اور بہنیں ٹیوشن سے پورا کرتی تھیں، انہوں نے میرا بہت ساتھ دیا ہے۔ مجھے بھی مستقبل میں ان کے لیے کچھ کرنا ہے۔ میں سر اُٹھا کر جینا چاہتا ہوں، میں جانتا ہوں کہ اس کے لیے مجھے بہت محنت کرنی پڑے گی۔

جنگ) دوران تعلیم کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ مشکل حالات کے باوجود کیا چیز ہے آپ کی ہمت اور طاقت بنی؟

انس حبیب) مشکلات کا سامنا تو ہر کسی کو زندگی کے ہر قدم پر کرنا پڑتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ان مشکلات میں گھبرانے کی بجائے ڈٹ کر انکا مقابلہ کرنا۔ مجھے بھی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کبھی مالی مسائل تو کبھی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ہوتا تھا۔ 

کئی بار موم بتی جلا کر پڑھتا تھا۔ لیکن یہ مشکلات وقتی تھیں۔ کالج آنے جانے کے دوران سفر کے مسائل بھی برداشت کیے، آئے دن کرائوں میں اضافہ اور سی این جی کی بندش کے باعث بہت بار رات گئے گھر واپسی ہوتی، ایسی صورت میں والدین میرے لیے پریشان بھی ہوجاتے تھے۔ لیکن میں کبھی نہیں گھبرایا، نہ ہمت ہاری بلکہ میں اپنے والدین کا بہت مشکور ہوں جنہوں نے ہزارہا مشکلات کے باوجود بھی مجھے کسی قسم کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ 

میری ضروریات کو نہ صرف ترجیح دی بلکہ اسے پورا بھی کیا، چاہئے اس کے لیے خود آدھی روٹی کھائی لیکن میرے لیے انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ مجھے تمام تر سہولیات میسر ہوں، میری کام یابی میں ان کی محنت اور قربانی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ ان ہی کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ میں آج پوزیشن لینے میں کام یاب ہوا ہوں۔ حالات جیسے بھی رہے ہوں یہ ان کی ہمت اور مجھ سے امیدیں تھیں، جو مجھے تحریک دلاتی، متحرک کرتی اور ہمیشہ میری ہمت بڑھاتی۔

جنگ) پڑھائی کے علاوہ کیا مصروفیات ہیں؟ کس چیز کا شوق ہے، مشاغل کیا ہیں؟

انس حبیب) میں گھر سے باہر کھیل یا دوستوں میں وقت نہیں گزارتا، نہ ہی کبھی اسکول کالج میں کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصّہ لیا، میری کوشش یہ ہی ہوتی تھی کہ جو وقت بھی ملے پڑھائی پر توجہ دوں، کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ اگر میں اپنی پڑھائی پر بھرپور توجہ نہیں دوں گا تو اپنے مقصد میں کام یاب نہیں ہوسکوں گا۔ 

نہ ہی کبھی کوئی شوق رہا اور نہ ہی کسی مشغلے کو اپنایا۔ گھر میں ٹی وی بھی نہیں ہے، بس ایک موبائل ہی ہے اور میری یہ ہی کوشش ہوتی تھی کہ موبائل کو بھی پڑھائی کے لیے استعمال کروں، کبھی کوئی چیز سمجھ نہیں آ رہی تو اِدھر یا اُدھر سے معلوم کرنے کی بجائے گوگل پر سرچ کرلوں اور وقت کا ضائع کیے بغیر اپنے مسلئے کا حل تلاش کرلوں۔

جنگ) آج کے نوجوانوں کے لیے کوئی پیغام؟

انس حبیب) آج میں بہت خوش ہوں میں نے اپنے والدین اور بہنوں کا خواب پورا کردیا اور میں تمام نوجوان نسل کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اپنے والدین کو خوش رکھیں اور اُن کی خواہشات کو پُورا کرنے کے لیے ہر مُمکن کوشش کریں پھر چاہے اِس کے لیے آپ کو اپنی خواہشات کو ہی کیوں نہ مارنا پڑے، کیونکہ اِس سے دُنیا کے ساتھ ساتھ آپ کی آخرت بھی سنور جائے گی۔ نسل نو کو کچھ حاصل کرنے، کچھ کر دکھانے کا جذبہ ہمیشہ جگا کر رکھنا چاہئے۔ ان میں مسلسل آگے بڑھنے کی لگن اور جستجو ہونی چاہئے۔ 

راستے خود بخود بنتے جاتے ہیں، منزل تک پہنچنے کے سفر میں آنے والی مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ اپنی نگاہیں منزل پر اور توجہ ہر اُس موقعے پر ہونی چاہئے جو اس راہ میں میسر ہوں، تاکہ آپ ترقی و کام یابی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ اپنے حالات کا تجزیہ کرتے رہیں اور وقت کی ضروریات کو جانیں، سوچیں، سمجھیں اور چیزوں کو پرکھیں آپ کو خود اپنے سوالوں کے جواب اور اپنی پریشانیوں کا حل مل جائے گا۔

جنگ) آپ کے رول ماڈل کون ہیں؟ آپ کو دوران تعلیم کس نے رہنمائی کی؟

انس حبیب) میرے والد ہی میرے رول ماڈل ہیں، جنہوں نے اتنی مشکلات کے باوجود مجھے پڑھایا لکھایا، صرف مجھے نہیں بلکہ میری بہنوں کو بھی تعلیم سے بہرہ مند کیا، انہوں نے کبھی بیٹے اور بیٹی میں فرق نہیں کیا، نہ ہی مجھ پر کوئی دباؤ ڈالا کہ پڑھائی چھوڑ کر گھر چلانے میں ان کی مدد کروں۔ تمام تکالیف خود برداشت کیں مجھے اس کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ ان کے لیے جو کروں وہ کم ہے۔ کالج کے تمام اساتذہ بہت مدد کرتے تھے، انہوں نے قدم قدم پر میری رہنمائی کی۔

مجھے کبھی یقین نہیں تھا کہ میں پوزیشن لے سکتا ہوں یہ سب ان کی محنت کا نتیجہ ہے میں آج جو کچھ ہوں اپنے والدین اور اساتذہ کی بدولت ہوں۔ مجھ سے زیادہ میرے اساتذہ کو مجھ پر بھروسہ تھا کہ میں پوزیشن لاسکتا ہہوں، انہیں مجھ سے بہت امیدیں تھیں اور مجھے خوشی ہے کہ میں ان کی امیدوں پر پورا اُترا ہوں۔

بیٹے نے میرا مان نہ توڑا
محدود وسائل کے باوجود کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا، انس کے والد

میں اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنانا چاہتا تھا، لیکن اس کا رجحان بزنس کی جانب تھا، بچوں کے ساتھ زبردستی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، پھر وہ اپنا سو فیصد نہیں دے سکتے۔ اس لیے بہتر یہ ہی ہے کہ انہیں وہی کرنے دیا جائے جس میں ان کا رجحان ہو، جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ 

مجھے ابتدا میں کچھ خدشات تو لاحق ہوئے کہ یہ کیسے کرے گا، کیوں کہ میڈیکل سے کامرس میں جانا بہت مشکل کام ہے۔ لیکن اس نے میرے تمام خدشات کو دور کیا، مجھے یقین دلایا کہ دن رات محنت کرے گا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ 

میں اس پر جتنا فخر کروں کم ہے۔ میری آمدنی کم تھی، خرچا پورا کیسے ہوگا، اس کی فکر رہتی۔ لیکن میری بیوی اور بیٹیوں نے بھی میرا بہت ساتھ دیا، کبھی کسی چیز کی شکایت کی اور نہ ہی خواہش کی، جس طرح آج کل کے بیوی بچے کرتے ہیں، عید ہو یا بقر عید، کوئی دوسرا تہوار ہو یا خاندان میں کوئی تقریب ہمیشہ چادر دیکھ کر پیر پھیلائے۔ 

میری بیوی سلائی کڑھائی کے ساتھ بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتی، بیٹیاں بھی گھر پر بچوں کو پڑھاتی تھیں تاکہ گھر کے اخراجات اور انس کی فیس جو کہ سالانہ تقریباً اسی ہزار تھی، انہیں پورا کیا جاسکے۔ 

انہوں نے مجھ پر کبھی کوئی بوجھ نہیں ڈالا۔ کبھی کسی سے ادھار لے کر کوئی ضرورت پوری کرنی چاہی تو میرے بیٹے اور بیوی نے منع کر دیا کہ ہم خود پورا کریں گے، ہمیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ انس کی پڑھائی، اس کی کتابیں، فیس وغیرہ کے اخراجات کے حوالے سے (میمن جماعت) ہماری جماعت نے بہت ساتھ دیا، ہر ممکن مدد کی۔ 

میں نے بیٹے اور بیٹی میں کبھی فرق نہیں کیا، ہمارے یہاں بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلائی جاتی لیکن میری ایک بیٹی نے بی کام کیا ہے، ایک نے بی اے اور ایک نے انٹر۔ میں گزشتہ 45 برسوں سے صدر کے علاقے ایمپریس مارکیٹ میں اخبارات اور رسالوں کا اسٹال لگا رہا ہوں ۔ 

انس نے میٹرک کیا تو دوست احباب رشتہ داروں نے کہا کہ اسے کسی کام پر لگا دوں تاکہ گھر میں چار پیسے آئیں، کچھ آمدنی بڑھ جائے لیکن میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ جس طرح میں نے سڑکوں پر زندگی گزاری میرا بیٹا بھی گزارے۔ 

اس دوران کئی مشکلات بھی آئیں، تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا گیا تو میرا اسٹال بھی مسمار کر دیا گیا، پھر میں سڑک پر چادر بچھا کر اخبارات فروخت کرنے لگا، لیکن میں نے کبھی انس سے کام نہیں کروایا، چاہئے حالات کیسے بھی ہوں، تاکہ اس کی تمام تر توجہ پڑھائی پر رہے اور یہ پڑھ لکھ کر کام یاب ہوجائے اور ایسا اس نے کر دکھایا۔ 

جب انٹر بورڈ سے کال آئی تو اتنا اندازہ تو ہوگیا تھا کہ انس کی پوزیشن آئی ہوگی لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ پہلی پوزیشن آئے گی، پوزیشن لینا اتنا آسان کام نہیں، فرسٹ ائیر میں پہلی اور دوسری پوزیشن میں چند نمبروں کا فرق تھا، مجھے لگا کہ دوسرے نمبر پر آنے والی بچی امیر ماں باپ کی بیٹی ہے۔

کسی اچھے ادارے میں ٹیوشن پڑھ کر زیادہ محنت کرکے اس بار پہلی پوزیشن پر آجائے گی، مجھے افسوس تھا کہ میں اپنے بیٹے کو وہ سہولیتں فراہم نہیں کرسکتا جو اس بچی کو حاصل ہیں، ممکن ہے انس پیچھے رہ جائے، لیکن جب انٹر بورڈ میں نتائج کا اعلان ہوا اور میرے بیٹے کی پہلی پوزیشن آئی تو خوشی سے میری آنکھیں نم ہوگیئں کہ، ایک عام غریب کے بیٹے کی بھی پوزیشن آسکتی ہے۔ 

اس کی والدہ جب بھی ٹی وی پر کسی پوزیشن ہولڈرز کے والدین کا انٹرویو دیکھتی تو خواہش کرتی کہ کبھی وہ بھی اسی طرح انٹرویو دے۔ انس نے اس کی یہ خواہش پوری کر دی۔

انس حبیب جیسے باصلاحیت نوجوان قوم کا افتخار ہیں، مئیر کراچی وسیم اختر

میئر کراچی وسیم اختر، انس حبیب اور اس کے والدین کو مبارک باد دینے اس کے گھر پہنچے اور اُس کے والدین کو بیٹے کی کام یابی پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ، انس حبیب جیسے نوجوانوں کو پورے ملک کے لیے باعث افتخار ہے۔ انہوں نے ایسے نوجوانون کو ملک و قوم کے لئے سرمایہ قرار دیا۔ غربت و کسمپرسی کے باوجود انس کے کارنامے کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ یہ والدین کی بہترین تربیت کا نتیجہ ہے۔ 

سر اُٹھا کر جینا چاہتا ہوں
میئر کراچی، وسیم اختر انس حبیب اور اہل خانہ کے ہمراہ

ہمارے نوجوانوں نے ہر دور میں ملک کی عزت و وقار میں اضافہ کیا ہے، انس جیسے ان گنت ہیرے کراچی کی مٹی نے پیدا کئے ہیں۔ نوجوانوں کو بہتر مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے نوجوانوں کو اگر موقع ملا تو عالمی سطح پر وطن کی شان بڑھائیں گے۔ وسیم اختر کی جانب سے انس حبیب کو بطور حوصلہ افزائی کیش انعام سے بھی نوازا گیا۔

انس حبیب جیسے طالب علم قوم کا فخر ہیں، وزیر اعلیٰ سندھ

گزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے انس حبیب اور اس کے والد کو وزیر اعلیٰ ہاوس مدعو کیا، انہیں کام یابی پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ، آپ کا بیٹا قوم کا فخر ہے، ایسے بچوں پر فخر کرنا چاہئے، جو محدود وسائل کے باوجود اپنے والدین کے خوابوں کو پورا کرتے ہیں۔ 

سر اُٹھا کر جینا چاہتا ہوں
وزیر اعلیٰ سندھ، سید مراد علی شاہ انس حبیب کو کتاب اور شیلڈ پیش کرتے ہوئے

ان کا کہنا تھا کہ، انس کی کام یابی پر اس سے زیادہ آپ (انس کے والد، محمد حبیب) تعریف کے مستحق ہیں۔ مالی مسائل کے باوجود آپ اپنے بیٹے کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی۔ انس نے نہ صرف اپنا اور اپنے گھر والوں کا بلکہ اپنی درس گاہ کا نام بھی روشن کیا ہے۔ 

مراد علی شاہ نے انس حبیب کو اعلیٰ تعلیم کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے بھرپور تعاون کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ انہوں نے رابطے کے لیے طالب علم کو اپنا موبائل نمبر دیتے ہوئے کہا کہ ’’تعلیمی کیرئیر کے حوالے سے کوئی بھی مسئلہ ہو آپ بلاجھجک فون کریں‘‘۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے صوبے کی معیشت پر لکھی گئی کتاب اور شیلڈ دی۔

تازہ ترین