• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کے خلاف جمعیت علمائے اسلام(ف) کا لانگ مارچ شروع ہو چکا ہے۔ تادم تحریر کراچی سے لانگ مارچ کا آغاز مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں ہوا اور ابتدائی طور پر لانگ مارچ کے کاررواں میں شریک لوگوں کی تعداد انتہائی متاثر کن ہے۔ جیسے جیسے یہ کاررواں آگے بڑھے گا، ڈرامائی صورتحال پیدا ہوتی جائیگی اور لوگوں کے تجسس میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

نصف صدی سے زیادہ میں نے پاکستان کی سیاست میں سرگرم حصہ لیا ہے اور اس دوران آمرانہ اور جمہوری حکومتوں کے خلاف چلنے والی احتجاجی تحریکوں کا نہ صرف شاہد ہوں بلکہ ان تحریکوں کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کیا۔ مولانا فضل الرحمٰن کی احتجاجی تحریک ان سب احتجاجی تحریکوں سے بہت مختلف ہے۔ میں ایوب خان کے خلاف یونائیٹڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ یعنی ’’یو ڈی ایف‘‘ کی تحریک میں بطور طالب علم شریک تھا۔ 

اس تحریک کا بنیادی جوہر یہ تھا کہ دنیا بھر میں جمہوری تحریکیں چل رہی تھیں اور جمہوریت پسند اور ترقی پسند سیاسی قوتیں بہت مضبوط تھیں۔ جمہوریت کی بحالی ان تحریکوں کا بنیادی ہدف تھا۔ ایک عالمی فیکٹر تھا۔ مقامی سطح پر ان عوامل کا ہونا ضروری نہیں تھا، جو کسی تحریک کے لئے لازمی ہوتے ہیں۔ تقریباً ایک عشرے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک چلی۔ 

اس تحریک میں اگرچہ بائیں اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں شامل تھیں لیکن اسے مذہبی نعروں پر چلایا گیا اور اسے تحریک نفاذِ نظام مصطفیٰﷺ کا نام دیا گیا۔ اس تحریک میں ابتدائی طور پر پنجاب شامل نہیں تھا وہ بعد میں شامل ہوا۔ یہ تحریک سندھ اور پنجاب کے شہری علاقوں کی رجعتی مڈل کلاس تک محدود تھی۔

جنرل ضیاء الحق کے خلاف تحریک بحالی ٔ جمہوریت (ایم آر ڈی) چلی۔ یہ تحریک موجودہ پاکستان (وادیٔ سندھ) کی تاریخ کی سب سے بڑی اور حقیقی عوامی تحریک تھی۔ یہ ان تحریکوں میں سے ایک تھی، جو تہذیبوں کو قربانیوں کی اعلیٰ اقدار سے مالا مال کرتی ہیں لیکن اس تحریک میں بھی بالادست اور استحصالی طبقات شامل نہیں تھے۔ 

اس کے بعد پاکستان میں عبوری طور پر ایک نام نہاد جمہوری وقفہ شروع ہوا۔ 1988میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت شروع ہوئی۔ اس کے خلاف ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ (آئی جے آئی) کے نام سے 1990میں ایک تحریک شروع کی گئی۔ اس تحریک میں ایک بار پھر دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں شامل تھیں لیکن ان جماعتوں کو صرف شہری مڈل کلاس کی حمایت حاصل تھی۔ محترمہ بےنظیر بھٹو کی حکومت کو ایک نام نہاد تحریک کی آڑ میں برطرف کیا گیا اور متنازع انتخابات کے نتیجے میں 1990میاں نواز شریف کی حکومت بنی ۔ 

1993میں اس حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی کی قیادت میں ’’تحریک نجات‘‘ شروع ہوئی اور پھر میاں نواز شریف کی حکومت بھی اس تحریک کی آڑ میں برطرف کر دی گئی جس میں شہری مڈل کلاس اور بالائی طبقات شامل نہیں تھے۔ عام انتخابات کے نتیجے میں ایک بار پھر محترمہ بےنظیر بھٹو کی 1993میں حکومت قائم ہوئی۔ اس کے خلاف اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی 1996احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ مسلم لیگ(ن) اس تحریک کی قیادت کر رہی تھی۔ 

تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا گیا۔ بالآخر بے نظیر بھٹو کی حکومت بھی 1996میں برطرف ہوئی۔ اس میں بھی تمام طبقات اور گروہ شامل نہیں تھے۔ محترمہ بےنظیر بھٹو کے خلاف تحریک کی قیادت جماعت اسلامی نے کی۔ اس میں بھی وسیع تر سیاسی اور عوامی شرکت نہیں تھی۔ 1996کے عام انتخابات میں میاں نواز شریف کی دوسری حکومت قائم ہوئی۔ 

محترمہ بےنظیر بھٹو جلا وطن ہو گئی تھیں کیونکہ ان کے خلاف نواز شریف دور کے مقدمات نے انہیں سیاسی طور پر مجبور کر دیا تھا۔ پھر بھی میاں نواز شریف کے خلاف پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کا لانگ مارچ ہوا لیکن 1999میں میاں نواز شریف کی برطرفی کا سبب اپوزیشن کی تحریک نہیں بلکہ فوج کے سربراہ کی تقرری کا معاملہ بنا۔ اپوزیشن کی تحریک میں پاکستان کے عوام کے تمام طبقات شامل نہیں تھے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے ایک احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس احتجاجی تحریک میں وہ تمام جوہر موجود ہیں، جو ماضی کی آمرانہ اور جمہوریت کے خلاف تحریکوں کا محرک تھے۔ اس تحریک کا سب سے بڑا محرک معاشی ہے۔ 

جولائی 2018کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی قیادت کی مقبولیت کی بنیاد پر جو سیاسی اسکیم بنائی گئی تھی، وہ ناکام ہو گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اگرچہ ایک مذہبی سیاسی جماعت کے رہنما ہیں لیکن انہوں نے اپنے احتجاج کے لئے کوئی مذہبی نعرہ نہیں لگایا ہے۔ 

انہوں نے سیاسی اور معاشی معاملات کو بنیاد بنا کر احتجاج کی کال دی ہے۔ پہلی مرتبہ احتجاج کے تمام معروضی تقاضے پورے ہو رہے ہیں۔ وہ پہلی مرتبہ ایک ایسی تحریک کی قیادت کر رہے ہیں، جس کی مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں بھی حمایت کرنے پر مجبور ہیں اور کوئی قابلِ ذکر سیاسی جماعت مخالف نہیں ہے۔ 

انہوں نے لانگ مارچ کی بہت اچھی حکمت عملی بنائی ہے۔ سندھ سے لانگ مارچ کا آغاز کیا ہے۔ بلوچستان کے قافلے ہی سکھر میں انکے ساتھ شامل ہوں گے۔ پنجاب انکے بھرپور استقبال کے لیے تیار ہے۔ خیبر پختونخوا سے عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں بھرپور شرکت کر رہی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیاست میں کوئی فرد، سیاسی جماعت یا گروہ بڑا نہیں ہوتا۔ اس کی حکمت عملی، اس کا پروگرام، اس کی سیاست اور اس کے نعرے بڑا اور چھوٹا بناتے ہیں۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

تازہ ترین