اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیے کہ اپنے اختیارات استعمال کرنے کے بجائے عدالت کا نام لینے پر وہ پیمرا کونوٹس کر رہے ہیں، چیئرمین پیمرا نے بظاہر توہین عدالت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیمرا کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں، عدالت کا نام استعمال نہ کریں، تحریری جواب دیں کہ عدالت کو اس معاملے میں کیوں گھسیٹا گیا؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پیمرا سے استفسار کیا کہ کیا عدالت نے اُنہیں یہ ہدایت دی تھی؟ کیوں تمام ایگزیکٹیو اتھارٹیز اور ریگولیٹرز اپنا کام نہیں کرتے؟
انہوں نے کہا کہ اسی لیے عدالتوں پر کیسز کا بوجھ ہے، عدالتی فیصلوں کا انتظار کرتے ہیں، پھر اس کا غلط استعمال کیا جاتا ہے، چیئرمین پیمرا نے بظاہر توہین عدالت کی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کوئی ابہام تھا تو درخواست دے کر عدالت سے پوچھا جا سکتا تھا، قانون میں بتا دیں کہ پیمرا کوئی ہدایت نامہ جاری کر سکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ کیا چیئرمین پیمرا کو وفاقی حکومت نے کوئی ہدایات جاری کی تھیں؟ چیئرمین پیمرا کے پاس بہت اختیارات ہیں مگر اس طرح کی ڈائریکشنز دینے کا اختیار نہیں۔
یہ بھی پڑھیئے: پیمرا نے اپنے ہدایت نامے پر وضاحت جاری کردی
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ یہ کہنے کا اختیارکس نے دیا کہ ایک اینکر دوسرے پروگرام میں نہیں جائے گا، کیا اتھارٹی یہ فیصلہ کرے گی کہ کس کا کردار اچھا ہے اور وہ ٹی وی پر آ سکتا ہے؟
چیف جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے یہ بھی کہا کہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ عدالت فیصلہ کرے تو جج کو متنازع بنانےکی کوشش کی جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2 اینکرز کو اپنے پروگرام کے ٹرانسکرپٹ اور سی ڈی جمع کرانے کی ہدایت بھی کر دی ہے۔