پنجابی کے تمام کلاسیکل شاعروں نے کسی نہ کسی حوالے سے یہ مصرع ضرور لکھا ہے کہ ’’ساڈھے تن ہتھ ملک تساڈا‘‘۔ اس کا مطلب ہے کہ آخرش انسان کی کل ملکیت ساڑھے تین ہاتھ (ہاتھ، کہنی سے لیکر مٹھی تک کی لمبائی کو کہتے ہیں) یعنی قبر کی جگہ ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے یہ مصرع ذہن میں چپک کر رہ گیا ہے اور ان دنوں کے واقعات کو مدِنظر رکھتے ہوئے قارئین خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ کروڑوں برسوں پر محیط انسانی زندگی میں کوئی بھی ساٹھ یا ستر سال سے زیادہ زندہ نہیں رہتا اور خالی ہاتھ قبر میں سما جاتا ہے لیکن اتنی سادہ اور بدیہی حقیقت کو بھی کروڑوں میں سے چند ہی سمجھ پاتے ہیں اور باقی بقول شاہ حسین ’’دنیا گئی ادھوری‘‘ کے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔
یہ ننھی منی حقیقت ایک ذہنی حالت ہے جو بزرگوں کے بقول کسی کسی کے نصیب میں آتی ہے۔ یہی وہ ذہنی کیفیت ہے جس سے سرشار منصور حلاج سولی پر لٹک جاتے ہیں، شاہ شمس تبریز اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی کھال ادھڑتی ہوئی دیکھ کر بھی چوں نہیں کرتے اور سقراط زہر کا پیالہ نوش کر لیتے ہیں۔ یہی کیفیت کربلا کے میدان میں تھی کہ اتنی بڑی فوج کے سامنے اپنی اور اپنے پیاروں کی جانیں شہادت کے لئے پیش کر دی گئیں لیکن منصور حلاج کے قاتلوں سے لے کر یزید تک اس ذہنی کیفیت کا اندازہ لگانے سے اس لئے قاصر ہوتے ہیں کیونکہ ان کو اپنی اصل ’’ساڈے تن ہتھ‘‘ ملکیت کی آگاہی نہیں ہوتی اور جن کو یہ ذہنی کیفیت نصیب ہو جاتی ہے وہ امر ہو جاتے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا لیکن طاقت کے نشے میں دھت آنکھیں ان کو پڑھنے کے قابل نہیں ہیں۔
آپ نے غور کیا ہوگا کہ ’’ساڈھے تن ہتھ‘‘ کی کیفیت میں سرشاروں کے بارے میں بہت سی کرامات و معجزات بیان کئے جاتے ہیں جو سائنس کے معروضی نقطہ نظر سے ناممکن قرار پاتے ہیں اور شاید ہم سائنس کو جھٹلا بھی نہیں سکتے لیکن کرامات کو سچ تسلیم کرنے والوں کے بارے میں فیصلہ کرنے سے پہلے تھوڑا تامل کیجئے کیونکہ ان کے لئے منصور و شمس جیسی ہستیوں کا وجود میں آنا ہی سب سے بڑی کرامت ہوتا ہے اور باقیماندہ قصے وہ اس لئے تراشتے ہیں کہ ان کے پاس ایسی انہونی کے اظہار کے لئے الفاظ نہیں ہوتے، وہ سادہ کہانیوں کے ذریعے اس کا ادراک کرتے ہیں۔ ان کے لئے بنیادی طور پراہم یہ ہوتا ہے کہ کون اس ’باہمی مقاصد‘ کے تحت چلنے والے خود غرضی کے نظام کی عملاً نفی کرتا ہے، کون اس صدا پر لبیک کہتا ہے۔
بنیادی طور پر کسی ایسے اصول پر ڈٹ جانا جس کا آپ کو ذاتی طور پر کچھ حاصل نہ ہو، وہ عوام کی خاطر ہو اور اس میں حکمران نظریہ یا اس کے استعمال کے خلاف جان کی بازی لگا دی جائے تو یہ فعل چالو سماج میں کرامت سے کم نہیں۔ عام طور پر انسان اپنی ساری زندگی اپنی اور اپنے خاندان کی جان و مال کی حفاظت اور معاشرے میں مقام پیدا کرنے یا شہرت حاصل کرنے کے لئے صرف کر دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی انا اور خاندانی وقار کے لئے زندگی سے ہاتھ دھونے کے لئے بھی تیار ہو جاتا ہے لیکن اس طرح کا فعل انسان کی ذاتیات کا حصہ ہوتا ہے جس سے خلقت خدا کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا لیکن اگر کوئی ذاتی حصول کو ترک کرکے خلقت خدا کی محبت میں جان نثار کرنے کے لئے تیار ہو جائے تو یہ ’ذلتوں کے مارے‘ بندگان خدا کی نظر میں کرامت ہو جاتی ہے اور ایسا کرنے والا ان کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کے سارے انسانی عیوب فراموش کر دئیے جاتے ہیں۔
منصور حلاج اور سقراط تو خیر بہت بڑے بڑے نام ہیں لیکن اگر ایک جگا ڈاکو بھی ذاتی طمع کے بجائے عوام سے محبت کرتا ہوا دکھائی دے تو اس کے بھی سینکڑوں برسوں تک گیت گائے جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہے کہ تاریخ کے لا منتہا سلسلے میں عوام اصلی ’ہیروں‘ کی پہچان کر لیتے ہیں اور ان کو اجتماعی کشف ہو جاتا ہے کہ کون واقعی انسان کو ’ساڈھے تن ہتھ‘ کا حقدار سمجھتے ہوئے، سرتلی پر رکھ کر ’پیار کرنے کے چاؤ‘ کا دم بھر رہا ہے۔ صاحبان عزت و جاہ جو مرضی کر لیں ایسے شخص کو لوگوں کے دلوں سے نہیں نکال سکتے۔
اس سوال کا جواب دینا بہت مشکل ہے کہ بظاہر لاحاصل کی تلاش میں جان دینے والے لوگ کیسے پیدا ہوجاتے ہیں یا یہ کرامات کیوں ہو جاتی ہیں۔ ہاں اتنا معلوم ہے کہ ایسی ہستیاں کچھ ایسے باطنی انقلاب سے ہم وصل ہوتی ہیں جس کے بارے میں سچل سرمست کہتے ہیں کہ ’’یار سانوں لگ گئی بے اختیاری سینے دے وچ نہ سمائی ہے‘‘۔ یہ کیفیتِ بےاختیاری ہی نرم و گداز بستروں پر جیل کی کوٹھڑیوں کو ترجیح دلواتی ہے اور سامنے کھڑی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈلوا دیتی ہے۔ آج بہت کچھ یاد آ رہا ہے جس میں پاش کی نظم بھی ہے جس میں انسانی خوابوں کا مرجانا ہی ’سب سے خطرناک‘ واقعہ قرار دیا گیا ہے لیکن یہ لمحۂ جشن بھی ہے کہ ابھی کوئی جیل کی کوٹھڑی میں موت سے آنکھیں چار کئے انسانی خواب بن رہا ہے اور آواز دے رہا ہے کہ:
ساڈا حال مریداں دا متر پیارے نوں کہناں
یارڑے دا سانوں ستھر چنگا، بھٹھ کھیڑیاں دا رہنا