اسپین اور پاکستان کی درآمدات اور برآمدات کی شرح میں خاصا بڑھاوا ہوا ہے جو خوش آئند ہے،جولائی تا نومبر2017 تک دونوں ممالک کے درمیان تجارت کی شرح 485ملین ڈالر جبکہ 2016کے پورے سال میں یہ شرح 379ملین ڈالرتھی، تجارت کی یہ شرح اب 106ملین ڈالر اور 28فیصد اضافے کے ساتھ سامنے آئی ہے۔
جنوری تا نومبر 2017تجارت 965ملین ڈالر تھی جبکہ یہی تجارت دسمبر میں 1050ملین ڈالر تک چلی گئی، 2018 دسمبر تک تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت ایک بلین ڈالر سالانہ سے زیادہ ہوکر 1.15بلین تک جا پہنچی ، حیران کن بات یہ ہے کہ ساری دُنیا کے ساتھ ہونے والی پاکستانی تجارت کا یہ 20واں حصہ ہے جسے صرف اسپین نے حاصل کیا ہے۔
پاکستان سے اسپین کے لئے سویٹرز، ٹیکسٹائل، گارمنٹس، جینز، ہوم ٹیکسٹائل فٹ ویئر، فارما سوٹیکل، اسٹیپل فائبرز اور اسپورٹس کا سامان بھیجا جاتا ہے، جبکہ اسپین سے پاکستان کے لئے مشینری، بوائلرز، میکینکل، کنسٹرکشن مشینری، سرامکس، کیمیکل، دفاعی آلات کے ساتھ ساتھ اورگینک کیمیکل، ادویات اور جانوروں کی نگہداشت کی اشیاء بھیجی جاتی ہیں۔
اسپین کی بہت سی کمپنیز نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی ہے۔ اسپین کی سب سے بڑی ہسپانوی کمپنی ’’اِندرا‘‘ جو انفارمیشن ٹیکنالوجی، سول ایوی ایشن کے ساتھ ریڈار سسٹم پر کام کر رہی ہے، اُس نے پاکستان ایئر فورس کے ساتھ تھنڈر جے ایف 17کے پائلٹس کی ٹریننگ کا معاہدہ بھی کیا ہے، ہسپانوی کمپنی ’’گیمسا‘‘ نے ونڈ انرجی پر سرمایہ کاری کی ہے، اسی طرح دوسری ہسپانوی بڑی کمپنیوں میں کارتے فیل، اینڈی ٹیکس، ’’زارا‘‘ مینگو نے اور اپنی دوسری پروڈکٹس کو پاکستان میں بیچنا شروع کر دیا ہے، یقیناً ہسپانوی کمپنیز کی پاکستان میں سرمایہ کاری پاکستان کے مستقبل کو تابناک بنانے کا سبب بنے گی۔
اسپین سے پاکستان کے لئے ماہانہ 80سے 150بزنس ویزے ایشو کئے جاتے ہیں جس کی بدولت ہسپانوی بزنس مین پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں آسانی محسوس کر رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے ہسپانوی بزنس مینوں کے لئے نئی سہولت کا آغازبھی کیا ہوا اگر کوئی ہسپانوی باشندہ بغیر ویزے کے فوری پاکستان جانا چاہے تو سفارت خانے میں تعینات کمرشل قونصلر اُس کو ایک لیٹر ایشو کرے گا جس پر سفر کیا جاسکتا ہے اس وجہ سے پاکستان ایئر پورٹ پر اترتے ہی ویزہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح ’’آئی سے کس‘‘ ACCIO اور ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے مابین ایک "MOU"سائن ہوا ہے جس کے تحت دونوں ممالک کے بزنس وفود کے دورے یقینی بنے ہیں ۔گذشتہ برس جب تحریک انصاف برسراقتدار آئی تو یہ خبریں زور پکڑ گئیں کہ بیرون ممالک سے سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو گی۔ ان دنوں مختلف بیانات سننے میں آ رہے تھے۔ ایک طرف سمندر پار پاکستانیوں نے ڈیم کی تعمیر کے لیے دل کھول کر چندہ دیا تو دوسری جانب ایسی خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ یورپین برانڈز بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی دلچسپی رکھتے ہیں۔
اگرچہ اسپانش برانڈ زارا، مینگو اور کورتے فیل کے بائنگ ہاوسز پاکستان میں کام کر رہے ہیں لیکن گروسری اسٹورز کی دنیا میں اسپین کے ایک مشہور برانڈ Condis" ‘‘ کا پاکستان میں اپنے اسٹورز بنانے کا اعلان اس لیے اہم تھا، کیونکہ اس کے پیچھے اسپین میں مقیم پاکستانی تاجروں کی ان تھک محنت تھی جنہوں نے ہسپانوی کمیونٹی اور تاجروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر قائل کیا ان پاکستانیوں میں چوہدری امانت حسین مہر کی کاوشیں سر فہرست ہیں۔امانت حسین مہر بارسلونا میں اس برانڈ کے مین فرنچائزر ہیں اور بیسیوں اسٹورز ان کی سپین میں ملکیت ہیں۔
اس وقت جب پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سمندرپار پاکستانیوں کو اپنا پیسہ پاکستان میں انویسٹ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں تو چوہدری امانت حسین مہر’’ کوندس ‘‘کے ہسپانوی وفد کے ساتھ پاکستان میں اہم ترین بزنس میٹنگوں میں مصروف ہیں، ان میٹنگز کے نتیجے میں ’’ کوندس ‘‘ برانڈ نے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ایک سال کی قلیل مدت میں، چوہدری امانت حسین مہر اور ان کی ٹیم نے اس اعلان کو حقیقت میں تبدیل کر دیا۔اس وقت لاہور کے ایک پوش ایریا اور انتہائی کمرشل زون ایم ایم عالم روڈ پر کوندس برانڈکو، رواں ماہ لاونچ کیا جا رہا ہے۔
جدید ٹیکنالوجی سے لیس اس شاپنگ اسٹور میں مختلف ڈیپارٹمنٹس بنائے جارہے ہیں، تاکہ خریداری کے لیے آنے والوں کو تمام سہولیات ایک چھت تلے میسر ہوں۔ ابتدائی سطح پر اس برانچ کی تکمیل میں بہت بڑی رقم خرچ ہوئی ہے اور انتظامی امور کے لیے چالیس انتہائی پروفیشنل اور تین سو کے قریب اسٹور اسٹاف مختلف شعبہ جات کی دیکھ بھال کے لیے پرکشش تنخواہوں، مراعات اور ریٹائرمنٹ بینیفٹس سمیت بھرتی کیا گیا ہے اور یہ برانڈ پاکستانی بے روزگاروں کو روزگار مہیا کرنے کا بہترین ذریعہ ثابت ہوا ہے، یہی نہیں بلکہ 90فیصد سے زائد گروسری پراڈکٹس پاکستان کے زمینداروں سے خرید کر اور معیار پر پورا اترنے کے بعد کوندس کی پیکنگ میں فروخت کی جائیں گی۔
جس سے زمینداری کا سیکٹر بحال ہونے میں مدد ملے گی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ، اس مد میں استعمال ہونے والا پیسہ پاکستانی بینکوں میں گردش کرے گا۔ایک اور اہم بات کہ کوندس پورے پاکستان میں اپنا نیٹ ورک قائم کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ ابتدائی سطح پر پاکستان کے13بڑے شہروں ملتان، کھاریاں ، اسلام آباد ، فیصل آباد، جہلم و دیگر میں بھی جدید طرز پر اسٹورز بنانے کا آغاز ہو جائے گا۔
یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ، دیار غیر میں رہنے والی پاکستانی کمیونٹی اگر تھوڑی سی کوشش کرے تو اپنے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کی کمیونٹی کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر قائل کر سکتی ہے، جس سے پاکستان میں جاری بے روزگاری پر خاطر خواہ قابو پایا جا سکتا ہے ۔ دوسری طرف حکومت پاکستان کو بھی چاہیئے کہ، جب کوئی غیر ملکی فرم یا ٹریڈ مارک پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے آئے تو انہیں دفاتر کے چکر لگوانے اور کاغذات کی تصدیق کی مد میں خواری کرنے سے محکموں کو باز رکھیں، آنے والے سرمایہ کاروں کو باقاعدہ طور پر تحفظ مہیا کیا جائے۔
گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے امانت حسین مہر کی قیادت میں پاکستان آنے والے سرمایہ کاروں کے وفود کو یقین دہانی کرائی ہے کہ، ہماری حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ہر طرح کا تحفظ دے گی تاکہ مزید سرمایہ کار بھی پاکستان کا رخ کریں ۔