یہ 30اکتوبر 2011ء تھی ، آج سے ٹھیک آٹھ برس قبل کی ایک شام جب لاہور میں مینارِ پاکستان کے باہر عوام کا ٹھاٹھے مارتا سمندر اپنے ہردلعزیز لیڈر عمران خان کا خطاب سننے کیلئے موجود تھا،
جتنے لوگ جلسے میں شریک تھے اس سے بہت زیادہ اپنے اپنے گھروں میں ٹی وی اسکرین کے سامنے تاریخی جلسہ دیکھنے کیلئے بے تاب تھے،پاکستانی میڈیا نے مینار پاکستان کے سامنے منعقدہ تاریخی جلسے کی جس وسیع پیمانے پر کوریج کی،اس کی وجہ سے ملکی سیاست میں پی ٹی آئی کو ایک نمایاں مقام حاصل ہوا، ہر ٹی وی چینل نے لائیو نشریات پیش کیں،
تمام ٹی وی چینلز پر تجزیہ نگاروں نے تحریکِ انصاف کے منشور پر کھل کر بحث کی، اور پھر یکے بعد دیگرے دیگر سیاسی جماعتوں کی وکٹیں گرتی چلی گئیں اور لوگ کپتان کی ٹیم میں شمولیت اختیار کرتے گئے۔
یہ سب بلاشبہ میڈیا مینجمنٹ اور میڈیا کی طاقت تھی جس نے آج پی ٹی آئی کو ایک حکمراں جماعت میں تبدیل کیا ،جس نے عمران خان کی بائیس سالہ جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور وہ پرائم منسٹر بننے میں کامیاب ہوئے۔عمران خان کی زیرقیادت پی ٹی آئی کے نیا پاکستان اور ریاست مدینہ کے نعرے کو عوامی قبولیت حاصل ہوئی اور عرصہ دراز سے ستائے عوام نے عمران خان سے امیدیں وابستہ کرلیں۔
آج جب مینارِ پاکستان کے تاریخی جلسے کو آٹھ برس کا عرصہ بیت گیا ہے، وزیراعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں میڈیا نمائندگان کو شدیدبے چینی اور غیریقینی صورتحال کا سامنا ہے، بالخصوص ابھی چند یوم قبل پیمرا کا ایک نوٹیفیکیشن منظرعام پر آیا جس کے مطابق ٹی وی اینکرز کو کسی بھی دوسرے ٹی وی ٹاک شو میں بطور مہمان تجزیہ نگار شامل ہونے کی ممانعت کی گئی ہے،
اس نوٹیفیکیشن کے حوالے سے صحافی کمیونٹی کا موقف ہے کہ یہ آزادی صحافت پر قدغن لگانے کی ایک حکومتی کاوش ہے، پاکستان کے صف اول کے نمایاں ٹی وی اینکرز نے اپنے مشترکہ مذمتی بیان میں پیمرا کے اس اقدام کو آمرانہ قرار دیتے ہوئے سخت احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے۔ پیمرا کی جانب سے عائد کردہ پابندی کو معاشرے کے مختلف طبقات کی جانب سے ہدف تنقید تو بنایا ہی گیا لیکن مختلف وفاقی وزراء سمیت حکومتی حلقوں نے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
میرا اس حوالے سے واضح موقف ہے کہ آزادی اظہار رائے جمہوری معاشرے میں بسنے والے ہر انسان کا بنیادی حق ہے ، آج اکیسویں صدی کے ڈیجیٹل دور میں الیکٹرانک میڈیا کو اس طرح پابندیوں میں جکڑنا کوئی قابل تعریف اقدام نہیں ۔ٹی وی اینکرز کا شمار معاشرے کے سمجھدار طبقے میں ہوتا ہے ، وہ معاشرے کے ان افراد میں شامل ہیں جن کی رائے کو عوام اہمیت دیتی ہے ، ان کی بات میں وزن ہوتا ہے،ایک جمہوری معاشرے میں کسی حکومتی ادارے کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ فیصلہ کرے کس کو ٹی وی پر بلانا ہے اور کس کو نہیں ۔
آج عالمی منظرنامہ میں ایک طرف آزاد اور ترقی یافتہ ممالک ہیں تو دوسری طرف پسماندہ اور تیسری دنیا کے ممالک۔ تمام آزاد، جمہوریت پسند، انسانی حقوق کے علمبردار اور خوشحال ممالک کے مابین قدر مشترک وہاں کا میڈیا ہے جو آزاد ہے۔
اسی طرح دیگر ممالک جو مسائل کا شکار ہیں ،جہاں افراتفری ہے ،پسماندگی، غربت اور انسانی حقوق کی پامالی ہے وغیرہ وغیرہ،وہاں عوام کی آواز دبائی جاتی ہے ، عوامی مسائل اجاگر نہیں کئے جاتے، وہاں کا میڈیا سرکاری گائیڈ لائن کے تحت سب اچھا دکھاتا ہے اور عوام کی آواز حکومتی حلقوں تک پہنچانے میں ناکام رہتا ہے یا اس کو ناکام کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں آزاد ہوا تھا ، قائد اعظم نے متعدد مواقع پر اس امر کی یقین دہانی کرائی تھی کہ پاکستان میںآزادی اظہار رائے یقینی بنائی جائے گی ، قائد اعظم کا ماننا تھا کہ دورِ جدید کی مہذب اور تعلیم یافتہ قوموں کا سب سے بڑا ہتھیار قلم ہے جس سے نہ صرف اپنا موقف منوایا جاسکتا ہے بلکہ قوموں کا مستقبل بھی یقینی طور پر روشن کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ وزیراعظم عمران خان کی کامیابی کا راز میڈیا ہے کیونکہ میڈیا ہی نے تحریک انصاف کے ایجنڈے کو پروموٹ کرنے اور اس کو آگے لیجانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ان کے دور حکومت میں صحافی بے چینی کا شکار ہیں۔
یہ ریاست مدینہ کا حقیقی واقعہ ہے کہ جب مسلمان حکمراں حضرت عمر فاروق ؓسے ایک عام شہری نے ان کے لباس کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے سوال کرنے والے کو خاموش کروانے کی کوشش نہیں کی بلکہ انہوں نے اپنے عمل سے ، اپنے دلائل سے حقیقت بیان کی کہ ان کے لباس کے لئے اضافی چادر ان کے بیٹے نے فراہم کی ہے۔
آج مولانا فضل الرحمان سے ہمارے سیاسی اختلافات ہو سکتے ہیں ، ان کے منشورسے ہم اختلاف کر سکتے ہیں لیکن وہ ملکی سیاست کے میدان میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں،اب اگر وہ آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے احتجاج کا جمہوری حق استعمال کررہے ہیں تو میڈیا کو کوریج سے باز رکھنا جمہوری طرز عمل کی سراسر خلاف ورزی ہوگا۔
پیمرا نے اپنے متنازع نوٹیفکیشن پر وضاحتی بیان جار ی کردیا ہے لیکن آزادی اظہار رائے کے حوالے سے ایسی بہت سی غلطیاں ہیں جو موجودہ حکومت سے مسلسل سرزد ہو رہی ہیں ۔ بطور مخلص پی ٹی آئی ورکر اور خیرخواہ میری رائے ہے کہ ہمیں نازیبا زبان اور غلط پالیسیوں سمیت ان تمام عوامل سے اجتناب برتنا چاہئے جن کی وجہ سے پہلے تمام سیاسی جماعتیں ہماری دشمن ہوئیں اور آج میڈیا بھی ہم سے بدظن ہورہا ہے، یہ وہ میڈیا ہے جس نے آٹھ سال قبل پی ٹی آئی کا تاریخی جلسہ لائیو دکھاکر ہمارا بھرپور ساتھ دیا تھا لیکن آج ہم نے اسے مشکلات کا شکار کردیا ہے۔
ہمیں ان مشیروں کو بھی ڈھونڈنے کی ضرورت ہے جن کے غلط مشوروں سے نہ صرف حکومت بدنام ہوتی ہے بلکہ ملک بھی کمزور ہوتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)