سینیٹر رحمان ملک چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے داخلہ و انسداد منشیات اسلام آباد ،مورخہ 25مارچ2016 بخدمت جناب بانکی مون سیکریٹری جنرل، اقوام متحدہ میں آپ نے توجہ 20نومبر 2015کے ایک خط کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا(جس کی نقل ساتھ منسلک ہے)، جس میں میں نے داعش کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی کارروائیوں کی نشاندہی کی تھی۔ میں نے آپ کے علم میں یہ بات لایا تھاکہ داعش ، القاعدہ سے بڑا خطرہ بن چکی ہے، جوکہ اب تک بلاشبہ سچ ثابت ہوا۔ پاکستان نے تقریباً 3 عشروں تک مستقل دہشت گردوں کی کارروائیاں سےبھگتیں۔ اپنے تجربات سے میںاس نتیجے پر پہنچا کہ داعش اپنی کارروائیاں محض جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں رکھے گی ، اور اپنے مخالفانہ ایجنڈے کے حصول کیلئے اپنی ہولناک کارروائیوں کا دائرہ یورپ سمیت پوری دنیا تک بھی وسیع کرے گی۔ افسوس ناک طور پر بڑھتے ہوئے بحران کے ساتھ ساتھ میرے خدشات اور جائزے درست ثابت ہوئے، جوکہ باعث تشویش ہے۔ داعش کی جانب سے مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا،ترکی اور حال ہی میں برسلز میں کی جانیوالی ہولناک،وحشیانہ دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں نے عالمی رہنماؤں کو ہمارے مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ حکمت مرتب کرنے میں ناکامی کے ضمن میں لمحہ فکریہ سے دوچار کیا۔ وحشیانہ دہشت گردی کا یہ رجحان مستقبل میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں ضیاع ویگر ایسی کارروائیوں کا آئینہ دار ہے ، جس کا فی الوقت ادراک بھی نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے آپ سے پہلے بھی درخواست کی تھی اور اب بھی ایک نکتہ پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی درخواست کرتا ہوں ؛جس میں داعش کے خلاف مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے کیلئے تجاویز لی جائیں، تاکہ پوری دنیا میں جاری اس کی انسانیت سوز دہشت گردانہ کارروائیوں کو روکا جاسکے۔ وقت کی اشد ضرورت ہےکہ بین الاقوامی برادری ویسے ہی اتحاد کا مظاہرہ کرے جیساکہ اس نے 9/11کے بعد کیا تھا۔ میں یہ بات دہراؤں گا کہ اس دہشت گرد تنظیم داعش کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے اور 9/11جیسے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا موقع نہ دیا جائے، یا اس سے بد تر تناظر یہ کہ تکنیکی اورانصرامی اعتبار سے تنظیم نے جدت حاصل کی اور اپنے ناپاک عزائم کے حصول کیلئےیہ کیمیائی ہتھیاروں کے حصول میں دلچسپی رکھتی ہے۔ لہٰذ ا میں عمومی طور پر دنیا کے امن کے مفاد میں آپ سے فی الفور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی درخواست کرتا ہوں، تاکہ یہ ہمہ گیر حکمت عملی اور منطقی تذویر مرتب کی جائے، جسے باقاعدہ طورپر اقوام متحدہ / سیکورٹی کونسل توثیق حاصل ہو ۔ میں تجویز دیتا ہوں کہ قریبی تعاون کے ساتھ داعش کے خطرے سے نمٹنے کیلئے بین الاقوامی سطح پر مخصوص قانون سازی کی جائے،تاکہ دنیا بھر میں مذہبی تفرقہ بازی پھیلانے کیلئے رچی جانیوالی سازش کا توڑ کیا جاسکے۔ داعش مذہبی امور میں گستاخی کی مرتکب تنظیم ہے ، جسے انسانیت کی کوئی پرواہ نہیں ،ا سکا واحد مقصد محض خوف و دہشت پھیلانا اور دنیا بھر میں انسانوں کی جانیں لینا ہے۔ مسلم امّہ کے تمام اقدار اور معیارات کے مطابق یہ تنظیم غیر اسلامی ہے، خود مسلم امّہ داعش کی دہشت گردی کی کارروائیوں کا نشانہ بن چکی ہے۔ لہٰذا، یہ بات سمجھنے کی ضرورت داعش کو اسلام کے تناظر سے علیحدہ کیا جائے، جیساکہ اس دہشت گرد تنظیم داعش کی جانب سے خود کو اسلام کا ماننے والا قرار دینے کیلئے مذہب سے متعلق نعرے، علامات اور موادکا استعمال کرکے دعویٰ کیا جاتاہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی رہنما بین المذاہب رواداری کو فروغ دینے کیلئے ضروری اقدامات کریں، جس میں تمام دنیا کیلئے مساوی انسانی حقوق کے عنصر کوقائم رکھاجانا چاہیے، دنیا کے ترقی یافتہ حصے میں کوئی انسانی جان کسی دوسری انسانی جان سے کم اہمیت کی حامل نہ ہو۔ عالمی امن کے قیام کے مقصد کے حصول کیلئے ایسی تفریق اور سفارتکاری کے معیارات کو لازمی طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔ عالمی برادری اور اس کے رہنماؤں کی مدد سے پوری دنیا میں امن کو یقینی بنانے کی ذمہ داری بطور سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ آپ کے کاندھوں پر ہے۔ داعش اب دنیاکے کسی خاص خطےتک محدود نہیں بلکہ اس نے انسانیت، بین المذاہب روا دا ر ی اور عالمی امن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے خو د کو جدت سے ہمکنار کرکے دنیا بھر میں پھیلالیا ہے۔ لہٰذا، میں اس بابت زور دیتا ہوں کہ آپ ان خدشات کو دور کرنے کیلئےپہل کریں اور مستقل میں داعش کے ہاتھو ں اس ہولناک تباہی سے بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں ۔ بطور سابق وزیر داخلہ پاکستان ، میں نے پہلے اپنے خدشات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ اقوام متحدہ اس موقع اور مرحلے پر لازمی طور پر اپنا کردار بر قت ادا کرے۔ تاہم دنیا اور عمومی طور پر انسانیت کو داعش کے ہاتھوں بڑی تباہی سے دوچار ہونے کا خطرہ درپیش ہے۔ میں انکسار کے ساتھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کیلئے درج ذیل نظرثانی شدہ ایجنڈے کی تجویز دوں گا۔ اقوام متحدہ کے اجلاس کیلئے مجوزہ ایجنڈا1) رکن ممالک داعش کی کارروائیوں کو روکنے کیلئے ان پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے آپس میں خفیہ معلومات کا تبادلہ کریں۔ داعش کو دنیا بھر میں مشترکہ دشمن قرار دے کراس کے ایجنڈے کو روکنے کیلئے بین الاقوامی سطح پر سخت قانون سازی کی جائے۔2،۱) ایک کمیشن تشکیل دیا جائےجوکہ تعین کرےکہ داعش کے وجود میں آنےکی وجوہ ، اسکے پھیلنے کا پس منظر کیا ہے، اور دنیا بھر میں اس کے اثرورسوخ کی کیا وجہ ہے۔ دیگر گروپس/ریاستی عناصر/غیر ریاستی عناصر کی حمایت کی واضح طور پر نشاندہی کرائی جائے۔ ب) اس کے مالی وسائل کی تحقیقات کرائی جائیں جوکہ اس کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ 3) اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے انتہائی تجربہ کار سیکورٹی ماہرین پر مبنی ایک بین الاقوامی ٹاسک فورس بنائی جائے، جوکہ آہنی ہاتھوں سے داعش سے نبردآزماہونے کیلئے طریقے تجویز کرسکیں اور اس کے خلاف بین الاقوامی عزم پختہ بنایا جائے۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوںکہ رکن ممالک کی حمایت کے ساتھ داعش کی دہشت گردی کی کارروائیوں سے سختی سے نمٹنے کیلئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بلایا جائے، تاکہ اس بابت رکن ممالک میں واضح عزم اور اتفاق رائے پیدا ہو۔ داعش کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کیلئے آپ کے اقدامات اور کارناموں کو اقوام متحدہ کی تاریخ اور عمومی طور پر دنیا میں امن کیلئے سنہرے لفظوں سے لکھا جائے گا۔ آپ کے جلد مثبت جواب کامتمنی ہوں۔