• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرحین منیر

بیگ میز پر رکھتے ہوئے نازیہ نے جیب سے پیسے نکالے ،بیس روپے کا نوٹ علیحدہ کر لیا یہ نوٹ تو غلط دے دیا دکاندار نے ،پتا نہیں کس سے چیز لی تھی۔

آج یا کل پیسے رکھے تھے وہ سوچنے لگی۔

حسن اس کے چھوٹے بھائی نے نازیہ کے ہاتھ سے نوٹ لیتے ہوئے کہا ،’’لائو میں اسے چلا دیتا ہوں کسی کو پتا ہی نہ چلے گا ۔صرف دو حصے جڑے ہوئے ہیں نمبر پورا نہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘

’’نہیں ایسا نہیں کرنا یہ دھوکا ہے‘‘،امی نے کپڑے استری کرتے ہوئے اسے تنبیہ کی ۔’’تو کیا ہوا امی، جس نے ہمیں دیا اس نے دھوکا نہیں دیا کیا ؟اب کسی اور کو ہم دیں گے تو کیا پتا چلے گا ۔

’’نہیں کسی کو پتا چلے نہ چلے ،مگر اللہ تو دیکھ رہا ہے۔ ‘‘مگر حسن نے بات مکمل ہونے سے پہلے ہی نوٹ ہاتھ میں لہرایا ،’’میں یاسر کی دکان پر جا رہا ہوں، اسے پتا بھی نہ چلے گا وہ جاننے والا ہے اس سے اکثر چیز لیتا رہتا ہوں‘‘۔

’’اف امی نے ماتھے پر ہاتھ مارا یہ لڑکا ہر چیز کو شرارت کیوں سمجھتا ہے۔‘‘

’’امی صحیح تو کہہ رہا ہے اس دکان دار کو اللہ یاد کیوں نہ آیا‘‘ ،نازیہ نے اعتراض کیا ۔’’ہو سکتا ہے بیٹا اس نے نہ دیکھا ہو، ‘‘امی نے وضاحت کی۔

’’کیوں نہ دیکھا ہو دکاندار تو ہر نوٹ لیتے ہوئے انگوٹھا رگڑ رگڑ کر دیکھتے ہیں،اصلی ہے یا نقلی۔‘‘،نازیہ نے اپنی بات پر زور دیا۔

’’بیٹا کوئی دیکھے نہ دیکھے ہمیں خود دیکھنا چاہئے۔ اچھا اور برا اور صحیح غلط کے فرق کو سمجھتے ہوئے،دھیان رکھنا چاہئے‘‘۔ اتنی دیر میں حسن گاتا ہوا اندر داخل ہوا اور ہاتھ بسکٹ کے پیکٹ لہراتے ہوئے نازیہ کو دکھاتے ہوئے’’ یہ لو دکاندار کو پتا بھی نہ چلا،دیکھا میرا کمال‘‘۔

’’یہ کمال نہیں بیٹا ،تم نے بہت چھوٹا کام کیا ہے،چند پیسوں کا فائدہ آخرت کا بہت بڑا نقصان ہے، یہ لوبیس روپے جا کر دکاندار کے حوالے کرو، دھوکا دینا بہت بری بات ہے۔ ہم مسلمان ہیں، اپنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتےہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،’’ کہ جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں‘‘ ،نبی صلی ا للہ علیہ وسلم کی سنت کے دعویدار کیا ایسے کام کرتے ہیں۔‘‘

حسن شرمندہ ہو گیا، اس نے جلدی سے امی کے ہاتھ سے بیس روپے لئے اور باہر کو چل دیا۔

واپس آ کر خوش ہو کر بتانے لگا کہ میں نے دکاندار کوبیس روپے دیئے تو وہ کہنے لگا،’’ تم اپنے ہی بچے ہو ،کوئی بات نہیں، میں چپ کر کے آگے چلا دوں گا، وہ نوٹ کسی کو پتا نہیں چلے گا۔‘‘ تو امی میں نے ان سے کہا،’’ کہ نہیں انکل یہ دھوکا ہو گا، آپ یہ بیس روپے کا نوٹ رکھ لیں، تاکہ کوئی اور دھوکا نہ کھائے۔مسلمان کسی کو دھوکہ نہیں دیتا۔‘‘

دکاندار یہ سن کر میری طرح شرمندہ ہوا ،اس نے وہ نوٹ مجھے واپس کرتے ہوئے میرا شکریہ ادا کیا۔

’’شاباش حسن !ہمیشہ یاد رکھو ہر شخص نے اپنے اچھے برے عمل کا حساب خود دینا ہے کسی دوسرے نے اس کا حساب نہیں دینا۔

تازہ ترین