• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی انتخابات کے حوالے سے میرے گزشتہ کالم کی اشاعت کے بعد بہت سے لوگوں نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ آخر امریکی ہمارے خلاف کیوں ہیں ؟ جب امریکیوں سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ بھی بالکل اسی طرح کا سوال کرتے ہیں کہ امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے حالانکہ امریکہ پاکستان کے عوام کی سماجی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے بہت کچھ کرتا ہے او ر سب سے زیادہ امداد بھی دیتا ہے ؟ ان سوالات کا تاریخی واقعات اور فلسفیانہ مباحث کی روشنی میں جائزہ لینا چاہئے اور باقی لوگوں کے ساتھ ساتھ امریکیوں کو بھی سنجیدگی سے اس معاملے پر غور کرنا چاہئے کہ آخر یہ سوالات کیوںپیدا ہو رہے ہیں او ر کیا امریکہ اور قوموںمیں جو Mistrust پیدا ہو رہا ہے اسکو کیسے دور کیا جائے۔
اس وقت پوری دنیا میں امریکہ مخالف جذبات پائے جاتے ہیں ۔ کہیں یہ جذبات کم ہیں اور کہیں زیادہ ہیں ۔ مشرق وسطیٰ کے علاوہ روس اور جرمنی اور یورپی ممالک میں بھی امریکہ مخالف جذبات زیادہ مضبوط ہیں ۔ کسی خطے ، تہذیب ، مذہب یا قوم تک یہ جذبات مخصوص نہیں ہیں ۔ انسانی تاریخ میں اس طرح کی کم مثالیں ملیں گی کہ کسی ملک یا قوم کے خلاف اس طرح کے جذبات پائے جاتے ہیں ۔ ایسے جذبات یا سوچ کو ’’ اینٹی امریکن ازم ‘‘ یا ’’ امریکہ نوفوبیا ‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ اسے ایک نظریہ یا ایک سوچ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ اس طرح کی اصطلاحات کسی دوسرے ملک یا قوم کے بارے میں رائج نہیں ہوئی ہیں ۔ اس موضوع پر دنیا بھر میں ریکارڈ سروے کیے جا چکے ہیں اور کئی کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں ۔ ہزار ہا تحقیقی مقالے اور مضامین بھی اس موضوع پر شائع ہو چکے ہیں ۔ مذکورہ بالا سوالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس موضوع پر بحث جاری ہے ۔
اگر یہ کہا جائے کہ ’’ اینٹی امریکن ازم ‘‘ کا آغاز سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ہوا تو بہت حد تک درست ہو گا ۔ اگرچہ اس اصطلاح کا سیاسی زبان میں استعمال 1940 ء اور 1950ء کے عشروں میں ہو گیا تھا لیکن اینٹی امریکن ازم کا یہ مفہوم نہیں تھا ، جو اس وقت ہے ۔ 20 ویں صدی کے پہلے نصف میں فاشسٹ جرمنی اور اٹلی میں امریکہ مخالف جذبات کو باقی دنیا میں پذیرائی نہیں ملی ۔فاشسٹ دنیا کی طرف سے امریکہ کی مخالفت کو اینٹی امریکن ازم سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا بلکہ دوسری جنگ عظیم کے دوران دنیا کے جذبات امریکہ کیساتھ تھے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے زمانے میں اشتراکی بلاک میں جو امریکہ مخالف جذبات پائے جاتے تھے ، اسی طرح کے جذبات تیسری دنیا میں نہیں تھے ۔ امریکہ کے بارے میں اشتراکی دنیاکا یہ تصور تھا کہ امریکہ عالمی سرمایہ دار بلاک کا سرپرست ہے اور جدید نوآبادیاتی لوٹ مار سے حاصل کردہ ساری دولت اس کے پاس جاتی ہے لیکن اشتراکی دنیا کی اس سوچ کو بھی اینٹی امریکن ازم قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے سے 1960 ءکے عشرے کے آخر تک دنیا میں بہت سے ملک آزاد ہوئے۔ دنیا اس وقت واضح طور پر اشتراکی اور سرمایہ درانہ بلاکس میں تقسیم تھی لیکن تیسری دنیا کے ممالک میں امریکہ کے بارے میں نو آزاد ممالک اور آذادی کی جنگ لڑنے والوں میں لوگ امریکہ سے محبت کرتے تھے۔ امریکہ کا رول اس وقت Anticolonial تھا۔ وہ نو آبادیاتی ملکوں کی آزادی چاہتا تھا اور نو آزاد ممالک کو مستحکم کرنے کیلئے Human Resourcesدیتا رہا ۔ انکی معاشی استحکام کیلئے انکی صلاحیت اور اہلیت میں اضافہ چاہتا تھا اور مالی مدد اور ہر طریقہ سے انکو ترقی پزیر ملکوں کی صف میں کھڑا کرنا چاہتا تھا ۔ اس سلسلے میں کوریا ، پاکستان ، جاپان سمیت کئی ایشیائی ، افریقی اور لاطینی امریکی ممالک کی مثال دی جا سکتی ہے ۔ ان خطوں میں لوگ یہ کہتے تھے کہ امریکہ ہمارا دوست ہے ۔ 60 اور 70 ء کی دہائیوں میں امریکی معیشت بہت مضبوط تھی اور اس عرصے میں ایک وقت ایسا بھی آیا ، جب پوری دنیا کا 38 فیصد سرمایہ امریکہ میں تھا ۔ پوری دنیا سے لوگ امریکہ جا کر سرمایہ کاری کر رہے تھے ۔ امریکہ معاشی طور پر ترقی کر رہا تھا اس کے نتیجے میں امریکی بڑی کمپنیوں کے امریکی سیاست میں70فیصد سے زیادہ اثرات تھے جو سیاست‘ خارجہ پالیسی اور معیشت پر اثر انداز ہو رہے تھے۔ ان کا اثر امریکی انتخابات میں بھی نظر آتا تھا اور اس کی خارجہ پالیسیاں آج سے بالکل مختلف تھیں ۔ امریکہ تیسری دنیا کے ملکوں کی اس لیے بھی مدد کر رہا تھا کہ وہ اشتراکی بلاک خصوصاً چین اورسوویت یونین کیساتھ نہ چلے جائیں۔ تاہم حالات نے اس وقت پلٹا کھایا ، جب سرد جنگ کا خاتمہ ہوا اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا ۔ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکہ مخالف جذبات کم ہو جاتے لیکن اس کے برعکس ہوا ۔ جب امریکہ کو دنیا کی اکیلی سپر پاور تسلیم کیا جانے لگا تھا ، یہی مرحلہ تھا ، جہاں امریکہ کی عالمی اقتصادی بالادستی ختم ہونا شروع ہوگئی تھی ۔ اشتراکی بلاک کا سرپرست سوویت یونین کئی ملکوں میں تقسیم ہو گیا تھا لیکن اب دنیا میں کئی اکنامک پاورز وجود میں آ رہی تھیں ، نئی emerging economy جن میں کوریا ، چین اور جاپان خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ جرمنی بھی ایک مضبوط معیشت کے طور پر ابھر چکا تھا ۔ بھارت بھی اقتصادی میدان میں بڑی طاقتوں کی دلچسپی پیدا کر رہا تھا ۔ ایشیا ، افریقا اور لاطینی امریکہ کے کئی ملکوں میں بہت تیزی سے سرمایہ کاری ہو رہی تھی ۔ وہ امریکہ جہاں ایک زمانے میں دنیا کا 38 فیصد سرمایہ ہوتا تھا اور اس وقت کے بڑے سرمایہ دار گروپ کا اثر امریکی سیاست میں60سے 70فیصد تھا۔80کی دہائی کے بعد وہ گھٹتے گھٹتے آج دنیا کا سرمایہ کا15 فیصد اور بڑے Cartelsکا اثر35فیصد سے بھی کم رہ گیا ہے ۔ سرمایہ مغر ب سے زیادہ تر مشرق کی طرف منتقل ہو گیا ۔ چین اپنی بند پالیسی سے نکل کر معاشی طاقت بننے کیلئے معاشی جارحانہ اقدامات کر رہا ہے ۔ آج پوری دنیا میں چین کے سرمایہ کار موجود ہیں ۔نہ صرف دنیا کی بڑی معیشتوں کو چین سے خطرہ ہے بلکہ خود امریکہ بھی اس حوالے سے پریشان ہے ۔امریکہ نے اپنی اقتصادی بالادستی کو بچانے یا یوں کہیے کہ اپنے اقتصادی بحران سے نمٹنے کیلئے نئی اقتصادی پالیسیاں بنانے کی بجائے اپنی فوجی طاقت پر انحصار کیا ۔ امریکیوں نے اپنی ’’ اینگلو سیکسن ‘‘ جبلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور قدیم نو آبادیاتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ’’ نیو ورلڈ آرڈر ‘‘ دیا ، جس میں دو عالمی جنگوں سے بھی زیادہ انسانی خون بہہ چکا ہے ۔ امریکہ نے اپنی معیشت کو کثیر القومی کمپنیوں کے تابع کر دیا اور دنیا میں تیل ، گیس اور دیگر قدرتی وسائل پر قبضے کیلئے فوجی مہم جوئی کی پالیسی اختیار کر لی ۔ امریکی صدور بش سینئر ، جمی کارٹر ، ریگن اور بش جونیئر نے جو غلط پالیسیاں اپنائیں ، ان سے عراق اور شام سمیت مشرق وسطیٰ کے ممالک ، افغانستان ، پاکستان اور دیگر مسلم ملکوں میں عدم استحکام پیدا ہوا ۔ امریکی پالیسیوں کی وجہ سے یہ ملک تباہ ہوگئے ۔ افریشیا ئی عوام یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے تہذیبوں کے تصادم کے نام نہاد نظریہ کی بنیاد پر دنیا کو بدامنی اور خونریزی کی آگ میں جھونک رہے ہیں ۔ میری دانست میں اس دور میں غلط امریکی پالیسیاں آج دنیا میں انتہاپسندی‘ تشدد اور دہشت گردی کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہیں ۔ لیکن حالیہ دنوں میں باراک اوباما کے دور میں امریکی پالیسیوں سے دنیا میں اس کا مثبتimageابھر رہا ہے۔ ایران سے تعلقات‘ کیوبا سے نئے تعلقات کی بحالی‘ افریقہ‘ فلسطینی اور مشرق وسطیٰ میں امن کی کوششوں سے قوموں میں Mistrustکم ضرور ہو رہا ہے۔ مگر آج بھی امریکہ میںٹرمپ جیسے لوگوںں کی کمی نہیںہے جو ایک بار پھر دنیا کو سرد جنگ کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔
امریکہ کو اپنے خلاف دنیا بھر میں ابھرتے ہوئے جذبات کو ٹھنڈا کرنا ہے تو اسے سرد جنگ کے بعد کی پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہو گی ، جن کی وجہ سے ’’ اینٹی امریکن ازم ‘‘ ایک نظریہ بن گیا ہے ۔ دوسری طرف امریکہ مخالف جذبات رکھنے والی قوموں اور گروہوں کو بھی اپنی سوچ پر نظرثانی کرنا ہو گی کیونکہ نفرت اگر جائز بھی ہو تو بھی وہ قوموں کو درست راستے سے ہٹا دیتی ہے ۔ امریکہ مخالف جذبات سے وہ لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں ، جنہیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے ’’ تصادم کار ‘‘ کا نام دیا ہے اور اس کا ان قوموں کو شدید نقصان ہو رہا ہے ۔ دونوں طرف سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔
تازہ ترین