ڈاکٹر سید اقبال محسن
پچھلے پانچ برسوں سے تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں گری ہوئی ہیں یعنی جوتیل سوڈالر کا ایک بیرل ہوا کرتا تھا وہ آدھی قیمت گویا پچاس سے ساٹھ ڈالرکا ایک بیرل مل رہا ہے۔پاکستان کی کمزور معیشت کے لیے یہ بہت بڑا تحفہ ہے، کیوں کہ ہماری درآمدات میں سب سے بڑا خرچہ خام تیل کی درآمد اور مشینری ہے۔پانچ سال سے ہم تیل کی کم قیمت پر دستیابی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں تو پھر ہمیں یہ فکر کیوں ہو کہ تیل کی قیمت بڑھ نہیں رہی ۔
تیل کی کم قیمت کا سب سے زیادہ نقصان تیل پیدا کرنے والے ممالک کو ہوتا ہے۔ سعودی عرب کو تیل کی آمدنی میں اس کمی کے بعد اپنی تمام پالیسیاں تبدیل کرنا پڑیں۔ وینزویلا کی معیشت ایسے انتشار کا شکار ہوئی کہ دوبارہ بہترنہ ہوسکی ۔لیکن چوں کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد مشرق وسطیٰ میں کام کرتی ہے اس لیےتیل کی قیمت گرنے سے ان کی ملازمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے اور لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔
تیل کی پیداوار اور استعمال شروع توامریکا میں ہوا لیکن عالمی سطح پر اس کی اہمیت1940ءکے لگ بھگ ایران اور سعودی عرب میں دریافت ہونے والے بڑے ذخیروں کی وجہ سے ہوئی ۔ یہ ذخیرے امریکی کمپنیوں نے دریافت کئے تھے اور عرب ممالک کی کمزور حکومتوں کا سارا انحصار تیل کی کمپنیوں پرتھا ۔ اس لیےتیل کی قیمت انتہائی کم یعنی صرف دو ڈالرفی بیرل ہوتی تھی ۔امریکی کمپنیاں تیل نکالتی تھیں اور وہی اسے امریکا لے جاتی تھیں اور عرب حکومتوں کے لیے دوڈالر کے حساب سے جورقم ملتی وہ بھی ان کے لئے بہت تھی۔
پھر حالات میں کچھ بہتری آنا شروع ہوئی ۔ تیل سعودی عرب سے لے کرلیبیا اور نایجریا تک ملتا گیا اور اس کی روزانہ پیداوار 80سے90ملین بیرل ہوگئی اسی دوران عرب اسرائیل جنگ ہوئی اور تب تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیکOPECمتحرک ہوئی اور انہوں نے سستے تیل کے خلاف مہم چلائی اور دوڈالر کا تیل نوڈالر کا ہوگیا اور دیکھتے دیکھتے36ڈالر تک جاپہنچا۔یہ مہنگے تیل کا دورتھا اور مڈل ایسٹ میں بے مثال ترقی کا دور چل پڑا ،جس کا فائدہ پاکستان نے صرف اس حد تک اٹھایا کے پاکستانی مزدور تعمیر کے کام میں لگ گئے ۔دیگر پیشوں کے لوگ بھی جوق درجوق ان ملکوں میں جاپہنچے اور پاکستان کو قیمتی زرمبادلہ بھیجنے لگے۔
تیل کی قیمت میں سپلائی اور ڈیمانڈ کے اصول کےتحت اتار چڑھاؤ آتارہا جب بھی عالمی سطح پر کشیدگی بڑھتی تیل کی قیمت بڑھ جاتی۔ خصوصاً جب امریکانے عراق پر حملہ کیا تو تیل 50ڈالر کا ہوگیا۔ادھر افغانستان میں بھی امریکی قومیں برسرپیکار تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ چین اور ہندوستان کی معیشتیں تیزی سے ترقی کررہی تھیں اور انہیں تیل ہر قیمت پردرکار تھا۔ چناں چہ عراق پرحملے کے بعد سے تیل کی قیمت مسلسل بڑھتی رہی اور2007میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ کر 147 ڈالر فی بیرل ہوگئی ۔اتنی زیادہ قیمت زیادہ دن تو بر قرار نہ رہی لیکن سو سے ایک سو دس ڈالر فی بیرل تیل کی قیمت 2014ء تک رہی ۔لیکن جب کئی معاملات ایسے ہوئے کہ تیل کی سپلائی بڑھتی گئی اور ڈیمانڈ میں کمی واقع ہوتی گئی توپھر تیل 50سے 60ڈالر کا ہوگیا اور ا س وقت یہی قیمت ہے۔
سپلائی کے اضافے میں ایک دخل تو شیل گیس shale gasکا ہے یہ ایک نئی قسم کے پڑولیم کے ذخیرے ہیں جن کا علم توہمیں کافی عرصے سےتھا لیکن اسے نکالنا بہت مہنگا پڑتا تھا پھر جب دونئی ٹیکنالوجی جسے Fracturing اور Horizontal drilling کہتے میں، ان کے باعث امریکا نے اپنی پیداوار شروع کردی ور امریکا تیل در آمد کرنے کے بجائے اس میںخود کفیل ہو گیا ۔ دوسرا سبب یہ ہوا کہ عالمی معیشت جو بڑی تیز رفتاری سے ترقی کررہی تھی وہ کچھ سست پڑگئی اور کچھ نہ کچھ فرق اس بات سے بھی پڑا کہ توانائی کے کئی متبادل ذرائع سامنے آگئے۔
لیکن سب سے بڑا فرق اس بات کا ہے کہ تیل بہت جلد دنیا میںختم ہوجائے گا اور اس بات پر بھی سب مطمئن ہیں کہ ابھی اگلے چالیس سالوں کے لیے تیل اور گیس موجود ہے اور اس عر صے میں نئے توانائی کے ذرائع کا استعمال بھی بڑھتا جائے گا ۔اس لیے سعودی اور یمن کی جنگ کے نتیجے میں تیل کی قیمتیں نہیں بڑھیں ایران اور امریکی تنازع بھی تیل پر اثر انداز نہیں ہوا حتیٰ کہ سعودی عرب کے تیل کی تنصیبات پرحملہ ہوا اور اس کی آدھی پیداوار بند ہوگئی لیکن تیل کی قیمتیں وہی کی وہی ہیں۔
تیل کی اہمیت بیسویں صدی میں اتنی بلند رہی کہ پٹرولیم انڈسٹری میں اسے تیل کی صدی کہتے ہیں لیکن ابھی تک تیل کی پیداوار بڑھتی رہتی ہے اور اس میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیںآرہے۔ رہی بات قدرتی گیس گی تواس کااستعمال پاکستان تو پچھلے پچاس ساٹھ سال سے کررہا ہے۔ لیکن دنیا نے ابھی استعمال کرناشروع کیا ہے قطر کے پاس گیس کا بہت بڑا ذخیرہ ہے جسے وہLNGکی شکل میں ایکسپورٹ کرتا ہے۔ ایران اور روس کے پاس بھی گیس کے بڑے ذخائر ہیں جنہیں بڑے پیمانے پر وہ اس وقت ایکسپورٹ کریں گے جب تیل کی پیداوار میں کمی آنے لگی گی۔
توایسی صورت میں تیل کی قیمت میں اضافے کا فوری امکان نظر نہیں آتا لیکن عالمی حالات بدلتے دیر نہیں لگتی جب تک تیل سستے داموں دستیاب ہے ہم اس کا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں لیکن کسی بھی غیر متوقع تبدیلی کے لئے ہمیں تیار رہنا چاہیے۔