برطانوی راج نے برصغیر سمیت اپنی تمام نو آبادیوں میں سیاسی، معاشی، عسکری و انتظامی ضرورتوں کے پیش نظر ریاستوں اور صوبوں کی حد بندیاں کیں، اسی طرح انہوں نے مخصوص زبانوں کی ترویج اور اشاعت یا انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے بھی منصوبہ بندی کی تاہم آزادی کی تحریکیں زور پکڑنے لگیں اور غیر ملکی آقاؤں کے قدم اکھڑنے لگے، تو ان نوآبادیوں میں مقامی تہذیب و ثقافت اور زبانوں کے حوالے سے نئی حد بندیوں اور صوبوں و ریاستوں کی تشکیل نو کے مطالبات بھی سر اٹھانے لگے، پاکستان اور بھارت کو آزادی ملی تو برطانوی دور کی انتظامی بنیادوں پر ریاستیں اور صوبے بھی ورثے میں ملے، ہمارے ہاں بدقسمتی سے جب بھی لسانی، ثقافتی تہذیبی اور فطری جغرافیائی بنیادوں پر نئے صوبوں کی تشکیل اور پرانے صوبوں کی از سر نو حد بندیوں کی بات کی گئی تو اسے حب الوطنی کے منافی اور اسلامی بھائی چارے کے اصولوں کے خلاف قرار دیا گیا اوریہی صورت حال آج بھی موجود ہے۔ تاریخی حقیقتوں اور عالمی اصولوں کے برعکس یہاں آج بھی انتظامی بنیاد پر یونٹوں یا صوبوں کی تشکیل کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وطن عزیز کی وہ جماعتیں جو اپنے آپ کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کی آل انڈیا مسلم لیگ کا وارث سمجھتی ہیں اس اٹل اور غلط موقف پر قائم ہیں کہ لسانی، ثقافتی و تہذیبی شناخت کی بنیاد پر صوبوں کے نام رکھنے یا ان کے قیام سے خدانخواستہ اسلام یا پاکستان کو نقصان پہنچے گا یا اس طرح ہم اس نظریئے کے منکر ہو جائیں گے، جس پر ہمارے اکابرین کاربند تھے۔ دراصل مخصوص مقاصد کے لئے کئے جانے والے پروپیگنڈے اور تاریخ سے لاعلمی نے ہمیں فکری و نظریاتی کجروی کا شکار کردیا ہے ورنہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ 1916میں قائد اعظم کی صدارت میں مسلم لیگ اور کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں ”کانگریس، لیگ لکھنئو پیکٹ 1916“ متفقہ طورپر منظور ہوا۔ جس میں مسلم لیگ اور قائد اعظم کے مطالبہ پر علیحدہ زبان و ثقافت کی بنیاد پر سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کا کہا گیا، 20 مارچ 1927 کو ناگپور میں ہونے والے اجلاس میں قائد اعظم نے دوبارہ کانگریس کو لسانی و ثقافتی بنیادوں پر صوبوں کی تشکیل پر قائل کیا۔ ان کی کوشش سے 12 فروری 1928 کو ”آل پارٹیز کانفرنس“ نے ایک متفقہ قرار داد کی منظوری دی جس میں ایک بارپھر صوبوں کی لسانی و ثقافتی بنیاد پر از سر نو حد بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس قرار داد پر مسلم لیگ کے نمائندے کی حیثیت سے خود دستخط کئے۔ نہرو رپورٹ جس میں ہندوستان کیلئے برطانوی راج کے تحت دستور کا مسودہ پیش کیا گیا تھا، قائد اعظم اس کے زبردست ناقد تھے اور اس کے جواب میں 1929 میں انہوں نے اپنے چودہ نکات میں لسانی و ثقافتی بنیادوں پر صوبے بنانے کے پرانے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے انتظامی بنیادوں پر صوبے بنانے کوغیر منطقی قرار دیا۔ قائد اعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے 11/ اپریل 1942 کو ایک قرار داد منظوری کی جس میں برطانوی وزیراعظم چرچل کی ان عبوری تجاویز کو مسترد کردیا گیا، جن میں برطانوی راج کے تحت قائم صوبوں کو مستقبل میں تحفظ دینے کی بات کی گئی تھی۔ قرار داد میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ انگریزوں نے یہ صوبے غیر منطقی انداز میں محض اپنی انتظامی سہولت کے لئے بنائے تھے، آئندہ صوبے صرف آبادی کی زبان و ثقافت اور فطری جغرافیائی حدود کی بنیاد پر تشکیل پائیں گے۔ قائد اعظم کے علاوہ سر آٰغا خان نے یکم جنوری 1919 کو نئی دہلی میں منعقد ہونے والی ”آل پارٹیز مسلم کانفرنس“ میں انگریزوں کے بنائے ہوئے انتظامی یونٹوں کو مسترد کر دیا تھا ۔ 1930 کو الہٰ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ ”ہندوستانی مسلمانوں کو خالص جغرافیائی حلقہ نیابت (Territorial Electorate) پر کوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ وہاں کے عوام کی ثقافت ، زبان اور نسلی و مذہبی یکسانیت کی بنیاد پر از سر نو صوبائی حد بندی ہو۔“
اس ساری مگر مختصر تمہید کی ضرورت پنجاب میں نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے قائم پارلیمانی کمیشن کی حتمی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد کی صورت حال کو دیکھ کر پیش آئی۔کمیشن نے نئے صوبے کا نام ”بہاولپور جنوبی پنجاب“ تجویز کیا ہے جسے یار لوگ ”بی جے پی“ بھی کہہ رہے ہیں کیونکہ خیبر پختونخواہ بھی تو ”کے پی کے“ کہلواتا ہے۔ سرائیکی قوم پرست پنجاب کے بائیس ، تیئس ضلعوں پر حق جتاتے ہیں لیکن انہیں پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادی صرف تیرہ اضلاع کا لولی پاپ دینے پر آمادہ ہوئے ہیں لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) یہ لولی پاپ بھی چھیننے پر تلی ہوئی ہے۔ ہماری تمہید بھی ان کیلئے ہی ہے۔ پنجاب کے گورنر مخدوم احمد محمود جماعت اسلامی جیسی کٹر نظریاتی جماعت کو ”بی جے پی“ کا حامی بنا چکے ہیں لیکن پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف ، سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی اور کھنڈر ہوتے ہوئے صادق گڑھ پیلس کے نواب صلاح الدین عباسی سابق ریاست بہاولپور کو ایک کمزور اور بے دست و پا صوبہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ بھلا تین اضلاع پر مشتمل یہ صوبہ جس کے پانی کے وسائل فروخت ہو چکے ہوں، ایک سوکھے دریا ستلج اور گم دریا ”ہاکڑا“ کے ساتھ کب تک بھوکا پیاسا زندہ رہ سکتا ہے۔
بہاولپور اور احمد پور شرقیہ میں سابق ریاست کو صوبہ کی شکل میں دیکھنے کے خواہشمند چند درجن مظاہرین کا غیر منطقی رویہ کہ یہ صوبہ یا ریاست ملتان، ڈیرہ غازی خان ڈویژنوں اور میانوالی بھکر اور جھنگ کو ساتھ ملانے سے کسی خسارے کا شکار ہو جائیگی، سمجھ سے بالا تر ہے۔ جہاں تک دو صوبے قائم ہونے سے پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں تمام وفاقی اکائیوں کی برابری کے اس جمہوری اصول کا ستون منہدم ہو جائے گا۔ موجودہ صوبہ پنجاب کی جگہ اس سمیت دو مزید وفاقی یونٹوں کے سینیٹر بھی اپنے اپنے صوبوں کی برابری کی بنیاد پر دی گئی نشستوں پر براجمان ہوں گے اور پہلے سے ہی عدم توازن کا شکار وفاق مزید غیر متوازن ہو جائے گا۔
لسانی، ثقافتی تہذیبی اور فطری جغرافیائی حدود پر مشتمل اکائیوں کو شناخت دینے کے مخالفین یا تو موجودہ صوبوں کے ناموں کو تبدیل کرائیں یا پھر اس ملک کو برطانوی راج سے آزادی دلانے والے رہنماؤں کے پیروکار بنیں خصوصاً بانی پاکستان کی جماعت کی وراثت کا دعویٰ کرنے والوں کو اکابرین کی فکری و سیاسی میراث پر کاربند ہونا چاہیئے۔ نہ کہ وہ اس فکری میراث کو اس ژولیدہ فکری میں غلط ملط کریں جوقائد اعظم کوکافر اعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کو برطانوی راج کا ایجنٹ قرار دیتی تھی اور پاکستان بنانے کے گناہ سے برات کا اعلان کرتی ہے۔ پیپلزپارٹی اوراس کے اتحادی اے این پی سمیت اگر سرائیکی وسیب میں عوام کی حمایت چاہتے ہیں تو ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کو بھی نئے صوبے کا حصہ بنائیں اور ”بی جے پی“ کی بجائے قائد اعظم محمد علی جناح ، علامہ اقبال اور دیگر قومی رہنماؤں کے خیالات کی روشنی میں نئے صوبے کو اس کا حقیقی نام دیں۔ پاکستان میں ایک ہی پنجاب کافی ہے، اب یہاں کوئی اور پنجاب نہ بنائیں کیونکہ بقول اقبال
ہیں اہل نظر کشور پنجاب سے بیزار