اسلام آباد (انصار عباسی) جولائی 2016ء میں نیب دستاویزات کے حوالے سے سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا کیس ایک جامع کیس اسٹڈی کے طور پر دی نیوز نے پیش کیا تھا کہ قومی احتساب بیورو کس طرح اہم سیاست دانوں کو بلیک میل کرنے کے لیے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتا ہے۔
پیر کو اخبار نے لندن میں خصوصی نمائندے مرتضیٰ علی شاہ کی اسٹوری شائع کی جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ انٹرپول نے اسحٰق ڈار کے ریڈوارنٹ جاری کرنے کے لیے حکومت پاکستان کی استدعا مسترد کر دی ہے۔ حکومت پاکستان سابق وزیر خزانہ کے خلاف کیس سے انٹرپول کو قائل نہ کر سکی۔
جولائی 2016ء میں دی نیوز نے نیب دستاویزات کا حوالہ دیتے انکشاف کیا تھا کہ مختلف تفتیشی افسران سے 7 سے زائد بار اسحٰق ڈار کے خلاف الزامات کی تحقیقات کیں اور ہر بار یہی سفارش کی گئی کہ ’’کیس بند کر دیا جائے۔ تاہم 2000ء کے بعد سے یکے بعد دیگرے آنے والے چیئرمین نے کیس کے التواء کی ہدایت کی۔
اسحٰق ڈار کے خلاف تحقیقات کا آغاز 2000ء میں ہوا اور 10 اپریل 2001ء کو انکوائری افسر ایف آئی اے کے شوکت علی نے الزامات ٹھوس نہ ہونے پر کیس بند کرنے کی سفارش کی۔ لیکن دو ہفتوں بعد 24 اپریل کویہ کیس تحقیقات کے لیے ایک اور افسر ابوذر سبطین کے حوالے کر دیا گیا۔ انہوں نے بھی اسی سال جون میں کیس بند کر دینے کی سفارش کی۔
انکوائری بند کرنے کے بجائے فروری 2002ء میں نیب کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر نے اعتراف کیا کہ اسحٰق ڈار کے خلاف کوئی شہادت دستیاب نہیں ہے۔ پھر بھی یہ مناسب ہوگا کہ کیس کو التواء میں ڈال دیا جائے تا کہ شریفوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ کے طور پر اسحٰق ڈار کا بیان لیا جا سکے۔
بعدازاں جولائی 2002ء میں نیب کے پراسیکیوشن اور آپریشنز ڈویژنز دونوں نے کیس بند کر دیئے جانے کی سفارش کی لیکن 27 جولائی 2002ء کو چیئرمین نے انکوائری التواء میں ڈالنے کی ہدایت کی۔ 20 دسمبر 2002ء کو کیس دوبارہ کھولا گیا لیکن ڈائریکٹر مارکیٹنگ نیب نے اسے بند کرنے کی دوبارہ سفارش کی۔ لیکن 27 دسمبر 2002ء کو ڈائریکٹر جنرل (آئی ایم) نے کارروائی کی تفصیلات کی شیٹ پر اپنی آبزرویشن دی کہ کیس کو اسحٰق ڈار کے عدالت میں وعدہ معاف گواہ کے طور پر بیان تک روکا جائے۔
یہ کیس مختلف ڈیسکس پر اس وقت تک زیرعمل رہا جب اس وقت کے اے پی جی اے نے 17 جولائی 2003 کو فائل پر یہ ریمارکس تحریر کر دیئے کہ ’’میں مسٹر نجم نے دو تین روز قبل چیئرمین کو بریف کیا۔ آج میں نے فائل ان کے سامنے رکھی۔
وہ چاہتے ہیں کہ معاملہ زیرالتواء رکھا جائے۔‘‘ اس کیس کا ستمبر 2004ء میں پھر سے احیاء ہوا تاہم اس وقت کے چیئرمین نے 9 ستمبر 2004ء کو کیس التواء میں ڈالنے کی ہدایت کی۔
22 ستمبر 2005ء کو کیس پر دوبارہ عملدرآمد کیا گیا۔ بیرون ممالک اسحٰق ڈار کے اثاثوں کی تفصیلات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ستمبر 2008ء میں ان کے تمام اندرون و بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات پر مشتمل رپورٹ پیش کر دی گئی۔ ساتھ میں کیس بند کر دینے کی بھی سفارش کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اسحٰق ڈار کا تعلق ایک معزز خاندان سے ہے لیکن چارٹرڈ اکائونٹنٹ کی حیثیت سے انہوں نے خطیر رقم کمائی ہے۔
وہ 2002ء سے شیخ النہیان کے مالی مشیر رہے۔ کیس بند کرنے کیلئے رپورٹ کی ڈی جی پی اے نے بھی حمایت کی کہ 1985ء سے 1999ء تک ترسیلات زر سے متعلق چارٹ سے ظاہر ہوتا کہ ملزم کی مجموعی آمدن 60765785 روپے اور اخراجات 22356837 روپے رہے۔ لیکن اس رپورٹ کے باوجود نومبر 2013ء تک کیس غیرفعال رہا۔
جب پراسیکیوشن ڈویژن نے سوال اُٹھایا کہ سوال ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں سیاست دانوں سے متعلق پالیسی کے باعث زیرغور نہیں آیا۔ بعدازاں گزشتہ نیب انتظامیہ کی پالیسی کے مطابق مقدمات چلانے یا بند کرنے کے حوالے سے 31 دسمبر 2015ء تک مکمل ہونے تھے۔ معاملے کا ازسرنو جائزہ لینے کے بعد نیب لاہور آفس نے 2015ء میں سفارش کی چونکہ کوئی تازہ شہادت دستیاب نہیں لہٰذا کیس بند کر دیا جائے۔
جس کی پراسیکیوشن ڈویژن نے توثیق کر دی۔ تب اس وقت کے قائم مقام چیئرمین نیب نے 21 اگست 2015ء کواس خواہش کا اظہار کیا کہ متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے کے ذریعہ ایک آخری کوشش کر لی جائے۔ بعدازاں جب کیس قائم مقام چیئرمین نیب کے سامنے لایا گیا تو 31 اگست 2015ء کو اسی فائل پر ہدایت کی کہ ہدایات کے برخلاف تحقیقات کو حتمی شکل دینے کیلئے تحقیقات میں ملوث شخص کے بیان کی ضرورت ہوگی ہمیں سفارت خانے سے کوئی خاطر خواہ جواب ملنے کی توقع نہیں ہے۔
قائم مقام چیئرمین کی ہدایت پر اسحٰق ڈار کا بیان لیا گیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی یا اہلیہ کی بیرون ملک کوئی جائیداد شیئرز یا بینک اکائونٹ نہیں ہے۔
23 تاریخ کو کیس دوبارہ زیرغور آیا۔ 14 اکتوبر 2015ء کو جب بیورو کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں کیس کو تیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
دریں اثناء نیب لاہور نے فروری 2016ء کو اسحٰق ڈار کے خلاف ہر الزام کی تفصیلی رپورٹ پیش کی جس کے تحت برٹش ورجن آئی لینڈ میں اسحٰق ڈار کی کوئی آف شور کمپنی نہیں ہے۔ ان کے ملک اور بیرون ملک کاروباری سرمایہ کی بھی تحقیقات کی گئی اور اثاثے ذرائع آمدن سے غیرمتناسب نہیں نکلے۔
دستاویزات کے مطابق نیب لاہور نے کیس بند کرنے کی سفارش کی کیونکہ کوئی تازہ شہادت دستیاب نہیں تھی۔ نیب لاہور رپورٹ کی توثیق بیورو کے آپریشنز اور پراسیکیوشن ڈویژنز نے کی۔
ای ایم بی نے اس کا جائزہ لیا اور بالآخر 16 سال بعد انکوائری بند کر دینے کا فیصلہ کیا گیا۔