• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سی پیک کیا ہے؟ عام بلوچستانی کو اسکے بارے میں اول تو معلوم نہیں اگر کسی کے پاس تھوڑی بہت معلومات ہیں تو اس حد تک کہ یہاں بڑے روڈز بننے جارہے ہیں۔ 

معلومات رکھنے والا شخص زیادہ پریشان ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ سی پیک سے بلوچستان میں معاشی تبدیلی تو ابھی دور ہے لیکن سی پیک بلوچستان کی قومی شاہراہوں کو دو رویہ کرنے والا منصوبہ بھی ثابت نہ ہو سکا۔ 

اس منصوبے کے تحت انڈسٹریل زونز کا قیام تو ابھی ایک بلوچستانی کیلئے جاگتے ہوئے خواب دیکھنے کے مترادف ہے جس کی تعبیر کے بارے میں وہ خود خیال کرتے ہوئے زیر لب مسکرا لیتا ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی نے اتنی جانیں نہیں لی ہیں جتنی بلوچستان کی مختلف قومی شاہراہوں پر حادثات نے لی ہیں۔ 

ہوم ڈیپارمنٹ کے ریکارڈ کے مطابق 2018میں 376حادثات ہوئے جبکہ اس کے مقابلے میں 2018میں دہشت گردی کے واقعات میں 313افراد شہید ہوئے تھے۔ اب اگر ہم اس کا تناسب نکالتے ہیں تو صرف 2018میں بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر 376حادثات میں 746گاڑیاں آپس میں ٹکرائی ہیں اگر ہم ایک حادثے میں 3افراد کی ہلاکت کی اوسط سے جائزہ لیں تو 1128افراد لقمہ اجل بنے جبکہ سیکنڑوں افراد ہمیشہ کے لئے معذور ہوئے ہیں۔ 

جنکا ڈیٹا بلوچستان میں ہوم ڈیپارٹمنٹ سمیت کسی کے پاس نہیں۔ بلوچستان کی خونی اور خطرناک قومی شاہراہوں پر آئے روز حادثات میں سینکڑوں لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں یا معذور بن جاتے ہیں۔ 

کچھ دن قبل آر سی ڈی شاہراہ پر حادثے میں 27افراد جھلس کر جان بحق ہوگئے تھے، لوگ اس درد کو نہیں بھولے تھے کہ پاکستان ایڈمنسٹریشن سروس کے آفیسر کمشنر مکران ڈویژن طارق زہری دفتر جاتے ہوئے اس روڈ پر حادثے کا شکار ہوئے اور اپنے محافظوں سمیت جھلس کر جان کی بازی ہار گئے۔ 

اسکی بنیادی وجہ بلوچستان میں موٹرویز اور ہائی ویز کا وجود نہ ہونا ہے اس وجہ سے ڈرائیوروں کی کوشش ہوتی ہے کہ سفر کا دورانیہ کم ہو اور وہ سپیڈ بریکرز اور خطرناک موڑوں پر لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ شاہراہوں پر تیز رفتاری کی حد کے مطابق بورڈ آویزاں نہیں کئے گئے ہیں۔ 

وقتاً فوقتاً بلوچستان کے مختلف اضلاع کی انتظامیہ کی جانب سے جاری ہونیوالی محفوظ سفری ہدایات کو این ایچ اے نظر انداز کر رہا ہے۔ ان شاہراہوں پر تنگ اور خطرناک موڑوں کو ٹریفک کی آسانی کے لئے وسیع اور کشادہ کرنے کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ 

سڑکوں کے کناروں پر مناسب سائن بورڈ آویزاں نہیں ہوئے ہیں۔ جن کی عدم موجودگی کے باعث ڈرائیور حادثے سے دوچار ہو جاتا ہے۔ گنجائش سے زیادہ سواریاں اور سامان کوئٹہ یا کراچی سے آنیوالی مسافر بسیں اٹھاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے بھی جان لیوا حادثات ہوتے ہیں۔ 

صرف آر سی ڈی شاہراہ پر 24گھنٹوں میں چلنے والی ٹریفک جن میں ایک اندازے کے مطابق ٹرک2190، کوچ/ بسیں1150، ویگن517، کاریں3175 اور موٹر سائیکل665 جن کی ٹوٹل تعداد 7697بنتی ہے۔ ان شاہراہوں پر این ایچ اے کی عدم دلچسپی کی وجہ سے زیادہ تر ریفلیکٹر اور کیٹ آئیز یا تو ٹوٹ گئے ہیں یا اکھڑ گئے ہیں اور سڑک پر دھنسی ہوئی کیلیں باقی بچی ہیں جن کی وجہ سے تیز رفتار گاڑیوں کے ٹائر یا تو پنکچر ہو جاتے ہیں یا برسٹ ہو جاتے ہیں جو کہ حادثات کی وجہ بنتے ہیں۔ 

زیادہ تر مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیور نشے کی حالت میں ہوتے ہیں۔ ان کی لیویز چیک پوسٹوں پر موثر کنٹرول کی ضرورت ہے۔ مسافر بسوں میں کسی ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے آگ بجھانے کے انتظامات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے۔ 

طویل المدتی اقدامات کے تحت موٹر وے پولیس کا دائرہ کار حب چوکی سے مستونگ جبکہ ژوب سے کچلاک تک بڑھایا جائے تاکہ قواعد و ضوابط پر موثر طور پر عمل درآمد ہو۔ اوور لوڈنگ اور اوور سپیڈنگ پر کنٹرول کیا جا سکے اور بھاری جرمانے اور لائسنس کی ضبطگی جیسے اقدامات اٹھائے جائیں۔ اکثر حادثات گہری ڈھلوانوں اور بےقاعدہ موڑوں پر ہوئے ہیں جو کہ این ایچ اے کے خصوصی توجہ کے طلبگار ہیں۔ 

بدقسمتی سے وفاقی پی ایس ڈی پی میں ڈبل وے لین کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ پورے بلوچستان میں 20کلومیٹر بھی دو رویہ سڑک نہیں ہے۔ وفاقی حکومت اس پر توجہ دے۔ گاڑیوں کی خستہ حالی تیز رفتاری اور مسافر بسوں کی خستہ حالی و تیز رفتاری کے خلاف کارروائیاں کی جائیں۔ 

صوبائی حکومت بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں لینے کو تیار نظر نہیں آتی کہ کم از کم گاڑیوں کی فٹنس کے معیار کو بہتر اور ٹرانسپورٹرز کو قوانین کا پابند کرسکے۔ صوبائی حکومت اور این ایچ اے مل کر طویل المدتی فیصلے کریں اور شاہراہوں کو جدید خطوط اور انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق دو رویہ بنائیں۔ 

نئے قوانین متعارف کروائے جائیں اور مسافر بسوں کو پیٹرول ڈیزل اٹھانے سے روکا جائے اور خلاف ورزی کی صورت میں ان پر پابندی عائد کی جائے۔ ان شاہروں پر ہیلتھ یونٹس قائم کئے جائیں۔ ایمبولینس اور آگ بجھانے والی گاڑیاں فراہم کی جائیں۔ 

ہائی وے پر ریسکیو 1122کو فعال کیا جائے تاکہ اس پر سفر کرنے والے مسافروں کی مشکلات کم ہوں۔ یہ قومی شاہراہیں بلوچستان کی عوام کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہیں جو انہیں ملک کے معاشی مراکز سے منسلک کرتی ہیں۔ موٹر وے پولیس، آر ٹی اے کے اسٹاف اور ہیلتھ مینجمنٹ کے اسٹاف کی ادارہ جاتی تربیت مستقبل میں ایسے حادثات کی روک تھام کے لئے اشد ضروری ہے۔ 

صوبائی حکومت کے پاس اس وقت محکمہ مواصلات اور تعمیرات میں تقریباً 35ہزار قلی ہیں جو ماضی میں سڑکوں پر بننے والے گڑھے بھرنے کا کام کرتے تھے۔ اب وہ گھر بیٹھ کر تنخواہیں لے رہے ہیں۔ 

انکو ریسکیو کی ٹریننگ دلوا کر ان کی خدمات ریسکیو 1122کے حوالے کی جائیں تاکہ انکی تنخواہ حلال ہونے کے ساتھ ساتھ قیمتی جانوں کے ضیاع کی روک تھام بھی ان کی مدد سے ممکن ہو سکے۔

تازہ ترین