جنگ: پیشہ ورانہ ماحول میں پیرامیڈکس اسٹاف کو باقاعدہ طور پر تربیت فراہم کرنے کے لیے بلیسنگ انسٹیٹیوٹ آف پیرامیڈکس قائم کرنے کا خیال کیوں اور کیسے آیا؟
ڈاکٹر محمد نعیم: سب سے پہلے تو میں یہ بتاتا چلوں کہ ہمارا سکھر میں 200بستروں پر مشتمل ایک ہسپتال اور بلڈ بینک ہے، اس کے علاوہ ہمارے میٹرنل چائلڈسینٹرز اور ڈسپنسریز ہیں۔ مزید برآں، ہمارے فیلڈ بیسڈ پروجیکٹس چلتے رہتے ہیں۔ بہرحال ہوا کچھ یوں کہ 2010ء میں پاکستان میں آنے والے بڑے سیلاب کے بعد متاثرہ علاقوں میں مختلف این جی اوز اور نجی اداروں نے ریسیکو اور بحالی کے کاموں کا آغاز کیا۔
ان اداروں نے ریسکیو سرگرمیوں کے لیے فیلڈ میں میڈیکل ٹیمیں تشکیل دیں۔ ظاہر ہے، اس کام کے لیے انھیں تربیت یافتہ عملے کی ضرورت تھی اور ان کے پاس فنڈنگ بھی موجود تھی، لہٰذا ان اداروں نے ہمارے پاس اور دیگر ہسپتالوں میں کام کرنے والے تربیت یافتہ عملے کو پُرکشش مراعات کی پیشکش کرنا شروع کردی۔ اس طرح، ہمارے لوگ بہتر مراعات ملنے کی وجہ سے ہمیں چھوڑ کر ان این جی اوز کو جوائن کرنے لگے۔
نتیجتاً، ہمارے پاس کام کرنے والے عملے کی قلت ہونے لگی، جس کے باعث ہمیںبہت مشکل صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑا۔ ایسے میں ہم نے اور ہمارے کچھ دوستوں نے محسوس کیا کہ ہمارے ملک میں پیرامیڈیکل اور نرسنگ ایجوکیشن کی اشد ضرورت ہے اور چونکہ ہم 200بستروں کا ہسپتال چلا رہے ہیں، تو ہمارے لیے یہ زیادہ ضروری ہے۔ بس یہی وجہ بنی پیرامیڈکس انسٹیٹیوٹ شروع کرنے کی۔
جنگ: کیا آپ کا ادارہ سرکاری طور پر تسلیم شدہ ہے اور اس کی اسناد کو ہر جگہ تسلیم کیا جاتا ہے؟
ڈاکٹر محمد نعیم: جی بالکل، ہمارا ادارہ، سندھ میڈیکل فیکلٹی حکومت سندھ اور پاکستان نرسنگ کونسل کے پاس رجسٹرڈ ہے۔ ہماری سہولیات اور انتظام کو جانچنے کے بعد انھوں نے ہمیں 600سیٹس کی اجازت دی۔ یہ ایک پورا پراسیس ہے، جس کے لیے ہمیں ان کی شرائط پر پورا اُترنا ہوتا ہے۔ انرولمنٹ سے لے کر سرٹیفکیشن کے اجراء تک سب کچھ سندھ میڈیکل فیکلٹی کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ ہمارا کام داخلہ حاصل کرنے والے امیدواروں کو عملی اور علمی تربیت فراہم کرنا ہوتا ہے۔ امتحان کا انعقاد بھی سندھ میڈیکل فیکلٹی ہی کرتا ہے۔
ہم داخلہ لینے والے بچوں کو باقاعدہ تعلیم اور تربیت فراہم کرتے ہیں اور ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا کہ اِنرولمنٹ کروانے کے بعد امیدوار کو کہیں کہ اب گھر جاؤ اور امتحان کے دِن آجانا۔ ہمارے یہاں مارننگ اور ایوننگ سیشن کی باقاعدہ کلاسز ہوتی ہیں، جہاں حکومت سے منظور شدہ نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ ہمارے تربیت یافتہ بچے، آج کئی نامور ہسپتالوں اور طبی مراکز میں بہترین خدمات انجام دے رہے ہیں۔
جنگ: سندھ میڈیکل فیکلٹی کی جانب سے منظورشدہ کورسز کی تفصیلات کیا ہیں؟
ڈاکٹر محمد نعیم: ہم سندھ میڈیکل فیکلٹی کے ایک سالہ دورانیے کے15کورسز کرواتے ہیں، جن میں ہیلتھ ٹیکنیشن، ڈسپنسر، لیبارٹری، ایکسرے، او ٹی، الٹراساؤنڈوغیرہ شامل ہیں۔ ان کورسز میں داخلہ لینے کے لیے امیدواروں کے پاس کم از کم میٹرک کی سند ہونی چاہیے۔ ہمارے یہاں نومبر میں داخلے ہوتے ہیں جبکہ کلاسز کا آغاز جنوری سے ہوتا ہے۔ ایک سال تک کلاسز چلتی ہیں اور پھر اگلے سال مارچ-اپریل میں امتحان لیا جاتا ہے۔ ان کورسز کی بنیاد پر بچوں کو سرکاری ہسپتالوں میں 7 سے 9 گریڈ کی نوکری مل جاتی ہے، جبکہ نجی ہسپتال بھی انھیں روزگار کے مواقع دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ان سرٹیفکیٹس کی بیرونِ ممالک بھی بڑی اہمیت ہے۔ پاکستان سے باہر جن ممالک میں ان سرٹیفکیٹس کو اہمیت دی جاتی ہے، ان میں خلیجی ریاستیں، کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا شامل ہیں۔
جنگ: آپ نے بتایا کہ سکھر میں ایک ہسپتال سے آپ نے اس سفر کا آغاز کیا۔ آج آپ جس مقام پر کھڑے ہیں، کچھ اس پر بھی روشنی ڈالیں؟
ڈاکٹر محمد نعیم: پیرامیڈکس انسٹیٹیوٹ کے بعد ہم نے نرسنگ انسٹیٹیوٹ قائم کیا ، جبکہ پانچ سال قبل ہم نے کراچی میں اس سیٹ-اَپ کی بنیاد رکھی۔ گزشتہ سال ہم نے حیدرآباد میں بھی اپنا سیٹ-اَپ کھولا ہے۔ اس طرح بلیسنگ انسٹیٹیوٹ اس وقت نجی شعبے میں پیرامیڈیکل اینڈ نرسنگ کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔
جنگ: لائف سیونگ طبی امداد میں پیرامیڈک اسٹاف کا کیا کردار ہوتا ہے؟
ڈاکٹر محمد نعیم: پیرامیڈکس تربیت یافتہ ٹیکنیشن ہوتے ہیں، کوئی سرنج لگا سکتا ہے، کوئی خون نکال سکتا ہے، کوئی مختلف ٹیسٹ انجام دے سکتا ہے، جن کا ایمرجنسی طبی امداد میں انتہائی اہم کردار ہوتا ہے۔کراچی جیسے بڑے شہر میں، کسی مضافاتی علاقے میں اگر رات کے وقت آپ کو میڈیکل ایمرجنسی پیش آجائے اور کسی کو انجکشن لگوانا پڑجائے تو آپ اپنے محلے میں کسی تربیت یافتہ ڈسپنسر کے پاس ہی بھاگیں گے۔
اس کے علاوہ ایمبولینسز میں پیرامیڈکس اسٹاف کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ پیرامیڈکس کسی بھی پرائمری، سیکنڈری اور ٹرشری میڈیکل سینٹر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مریض کی دیکھ بھال سے لے کر لیبارٹری، ایکسرے اور بلڈ بینک تک آپ کسی بھی مرحلے میں میڈیکل ٹیکنیشن کی عدم موجودگی کا تصور نہیں کرسکتے۔
جنگ: کیا پیرامیڈکس اور ایمرجنسی میڈیکل ٹیکنیشن ایک ہی ہوتے ہیں؟ کچھ ان کی کیٹیگریز کے حوالے سے بتائیں؟
ڈاکٹر محمد نعیم: جی، میڈیکل ٹیکنیشن کی مختلف کیٹیگریز ہوتی ہیں۔مثلاً کوئی سی ٹی اسکین ٹیکنیشن ہے، کوئی ایکسرے اور الٹراساؤنڈ ٹیکنیشن ہے، کوئی ڈینٹل ٹیکنیشن ہے، آئی سی یو ٹیکنیشن الگ ہوتا ہے، اسی طرح انستھیزیاٹیکنیشن اور ای سی جی ٹیکنیشن بھی الگ ہوتا ہے۔ ایک ڈسپنسر اور ہیلتھ ٹیکنیشن بھی ہوتا ہے جو کہ ہرفن مولاہوتا ہے۔ ان سب کے بغیر کوئی ہسپتال، کوئی کلینک چل نہیں سکتا۔
جنگ: آپ کی باتوں سے ہمیں میڈیکل ٹیکنیشنز کی اہمیت و افادیت اور ان کی ضرورت کا پتہ چل رہا ہے۔ اس حوالے سے کچھ مزید روشنی ڈالیں؟
ڈاکٹر محمد نعیم: پاکستان کو تربیت یافتہ میڈیکل ٹیکنیشنز کی اشد ضرورت ہے۔ آج پاکستان میں جو کوئی بھی نیا ہسپتال بنانا چاہتا ہے، اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہی تربیت یافتہ میڈیکل ٹیکنیشنز کی خدمات حاصل کرنا ہوتا ہے، جن کی ہمارے یہاں ابھی بھی کافی قلت ہے۔ صرف پیرامیڈکس ہی نہیں بلکہ ملک میں نرسنگ اسٹاف کی بھی قلت ہے۔
جنگ: انستھیزیا کا شعبہ انتہائی اہم ہے جہاں ڈاکٹر کو ہر چیز کا ہر وقت بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس میں انستھیزیا ٹیکنیشن کا کیا کام ہے؟
ڈاکٹر محمد نعیم: انستھیزیا ٹیکنیشن کی ذمہ داریوں میں انستھیزیا مشین کی دیکھ بھال اور حفاظت، سرجری کے دوران انستھیزسٹ یعنی انستھیزیا کے ڈاکٹر کو معاونت فراہم کرناہے۔ اس کے علاوہ انستھیزیا ٹیکنیشن کا آئی سی یو میں بھی کام ہوتا ہے، جیسے وینٹی لیٹر چلانا، آکسیجن کے سسٹم کو دیکھنا، مریض کی مانیٹرنگ وغیرہ۔ انستھیزیا اور آئی سی یو ٹیکنیشن ہر مرحلے پر ڈیوٹی ڈاکٹرز کو معاونت فراہم کرتے ہیں۔
جنگ: آپ ہیلتھ ٹیکنیشن کا کورس بھی کرواتے ہیں۔ ہیلتھ ٹیکنیشن کی ذمہ داریوں میں کیا کچھ شامل ہوتا ہے؟
ڈاکٹر محمد نعیم: ہیلتھ ٹیکنیشن وارڈ میں نرس کے متبادل کے طور پر کام کرتا ہے۔ میل وارڈ میں کام کرتا ہے اور وہ نرس والے تمام کام کرسکتا ہے جیسے کہ مریض کو دوائی دینا، انجیکٹیبل دینا، مریض کا بلڈ پریشر اور پلس مانیٹر کرنا وغیرہ۔ ہیلتھ ٹیکنیشن کو تمام چیزیں پڑھائی جاتی ہیں اور یہ ڈیڑھ سال کا کورس ہوتا ہے۔ وہ دور دراز کے بیسک ہیلتھ یونٹس میں بھی کام کرتا ہے۔
جنگ: کس بنیاد پر آپ داخلہ دیتے ہیں؟
ڈاکٹر محمد نعیم: امیدوار کا بائیولوجی کے ساتھ میٹرک میں 45فیصد مارکس لے کر پاس ہونا بنیادی شرط ہے۔
جنگ: بلڈ بینک ٹیکنیشن کیا ہوتا ہے؟
ڈاکٹر محمد نعیم: جس طرح ایک لیبارٹری ٹیکنیشن ہوتاہے، اسی طرح ایک بلڈ بینک ٹیکنیشن ہوتا ہے۔ بلڈ بینک میں کام کرنے والے ٹیکنیشن بلڈ اسکریننگ کرتے ہیں، بلڈ گروپنگ کرتے ہیں، کراس میچنگ کرتے ہیں، بلڈ ڈونرز سے بلڈ لیتے ہیںاور ان کا خیال رکھتے ہیں، جبکہ کسی ری ایکشن کی صورت میں اس پر قابو پانابھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے۔ لیبارٹری سے ہٹ کر، بلڈ بینک ایک زیادہ اسپیشلائزڈ سبجیکٹ ہے۔
جنگ: بلیسنگ پیرامیڈکس اینڈ نرسنگ انسٹیٹیوٹ یہ کورسز کہاں کہاں آفر کرتا ہے؟
ڈاکٹر محمد نعیم: ہم کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں قائم اپنے ہسپتالوں میں امیدواروں کو پیرامیڈکس اور نرسنگ کے کورسز آفر کرتے ہیں۔ ہمارے صوبے میں پیرامیڈکس کی بہت قلت ہے اور جو کوئی بھی یہ کورس کرلیتا ہے، اسے سرکاری اور نجی شعبے میں بآسانی نوکری مل جاتی ہے۔ سال بھر میں ہم 800سے 900طلبا کو اِنرول کرتے ہیں، جن میں سے پاس ہونے والے طلبا کی شرح 60سے 65فیصد ہے۔ ہم ایک سال، ڈیڑھ سال اور دو سال کے کورس آفر کرتے ہیں۔
دراصل، ہمارے سارے کورس ایک سال کے ہیں، صرف ایک ہیلتھ ٹیکنیشن کا کورس ڈیڑھ سال اور چار کورسز دو سال کے ہیں جبکہ آئی سی یو ٹیکنیشن کا کورس کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے پہلے انستھیزیا کا کورس کیا ہوا ہے۔ حکومت اس شعبہ میں مزید اصلاحات پر کام کررہی ہے اور سارے کورسز کو دو سال کا کرنے کا سوچ رہی ہے، جس کے بعد اس کورس کو انٹر کے مساوی تسلیم کیا جائے گا اور پھر یہ چار سال کا بی ایس سی کرسکیں گے، مزید برآں وہ ماسٹرز اور پی ایچ ڈی بھی کرسکیں گے۔ اس طرح ان بچوں کا ایک باقاعدہ کیریئر پاتھ بن جائے گا۔
جنگ: ہمارے قارئین کے لیے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
ڈاکٹر محمد نعیم: جب تک ہم یہ طے نہیں کریں گے کہ ہم نے ایمانداری سے ٹیکس دینا ہے، بجلی، گیس، پانی اور دیگر حاصل سہولیات کے بل ادا کرنے ہیں، تب تک نہ ہم ترقی کرسکتے ہیں اور نہ ہی ایک اچھی قوم بن سکتے ہیں۔ بڑے بڑے نامور ادارے جی ایس ٹی اور وِد ہولڈنگ ٹیکس ہڑپ کرجاتے ہیں۔ آپ نے ایک بڑے ریستوران یا چین فوڈ میں کھانا کھایا، اس نے آپ سے جی ایس ٹی وصول کرلیا لیکن حکومت کو جمع نہیں کروایا۔
اگر کبھی وہ پکڑا گیا تو معاملہ قانونی چارہ جوئی کی نذر ہوجائے گا، برسوں بعد فیصلہ ہوگا اور وہ کہے گا کہ میں تو اتنے پیسے دوں گا۔ ہمارے یہاں ٹیکس مشینری کا بھی مسئلہ ہے۔ اب تو آٹومیشن کا زمانہ ہے، آپ کو پتہ ہے یہ ایک آؤٹ لیٹ ہے، اس کا اتنا ٹرن اوور ہونا ہے، اس کے مطابق ہی اس سے پورا پورا ٹیکس خودکار نظام کے تحت وصول ہونا چاہیے اور نہ آنے کی صورت میں آپ کی ٹیکس مشینری کو اتنا ایفیشنٹ ہونا چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس کے خلاف کارروائی شروع کرسکے۔ ایسا کرنا پڑے گا، ورنہ ملک نہیں چلے گا۔