مخدوم عبد الواحد سیوستانی بن مخدوم دین محمد بن عبد الواحد کبیر پاٹائی سندھ کے نامور فقیہ، محدث ، صوفی، صاحبِ کشف و کرامات بزرگ اور شاعرتھے۔ آپ کا لقب نعمان ثانی اور اصل نام قاضی محمد احسان تھا لیکن مخدوم عبد الواحدسیوستانی کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کے والد مخدوم دین محمد بھی اپنے وقت کے بلند پایہ عالم اور صوفی بزرگ تھے۔ مخدوم دین محمد سندھ کے تاریخی شہر پاٹ سے نقل مکانی کر کے سیہون شہر میں قیام پذیر ہو گئے تھے۔ مخدوم عبد الواحد 1150ھ میں سیہون میں پیدا ہوئے۔
جس وقت آپ کی ولادت ہوئی اس وقت سیہون علم و فضل کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔ بڑے بڑے علما و فضلا اس شہر میں جلوہ گر تھے، خود آپ کا خاندان بھی علما، فضلا اور فقہا سے بھرا ہوا تھا، چنانچہ ایسے علمی ماحول میں ان کے والدِ محترم مخدوم دین محمد کی زیرِ نگرانی ان کی تعلیم کی شروعات ہوئی اور انہی کے زیرِ سایہ آپ نے مختلف علوم کی تکمیل کی۔
علومِ ظاہری کے ساتھ ساتھ علومِ باطنی میں بھی آپ بلند مقام رکھتے تھے اور علم ِباطن کی تکمیل کے لیے آپ نے خانوادہ مجددیہ کے چشم و چراغ اور سلسلہ نقشبندیہ کے کامل بزرگ مخدوم خواجہ صفی اللہ مجددی (متوفی 1212ھ) سے رجوع کیا، انہی سے آپ سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے اور اجازت و خلافت حاصل کی۔ ساری زندگی انہوں نے لوگوں کو اصلاحِ حال، رشد و ہدایت، درس و تدریس اور عقائد باطلیہ کے خلاف پر سرِ پیکار رہ کر گزاری اور عمر کا بڑا حصہ تصنیف و تالیف میں گزارا۔
آپ فقہ حنفی میں درجۂ اجتہاد پر فائز تھے۔ فقہ میں وہ درک و مقام حاصل کیا کہ وہ نعمان ثانی کے لقب سے یاد کیے جانے لگے۔ دور دور سے آپ کی خدمت میں فتوے آتے تھے اور آپ اس کے محققانہ جوابات تحریر کر کے ارسال فرماتے تھے۔ آپ جو بھی فتویٰ تحریر کرتے وہ آپ کے ایک شاگرد مولوی محمد افضل نقل کر لیا کرتے تھے۔ اس طرح یہ فتاویٰ جمع ہوتے ہوتے تین ضخیم جلدوں کی صورت اختیار کر گئے اور اس بیش بہا خزانے کا نام جمع المسائل علیٰ حسب النوازل رکھا گیا جو آج کل بیاض واحدی کے نام سے مشہور و معروف ہے ۔
مخدوم عبدالواحد کے مشہور خلفاء میں محمد حسین سیوستانی، آخوند رزاق ڈنو، رئیس محمد حسن کھاوڑ، میاں محمد امین خیرپوری، غلام رسول افغان خاموش اور خلیفہ عبد الحکیم سیوستانی وغیرہ مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ مخدوم محمد عابد انصاری سہوانی اور مولوی محمد افضل بھی آپ کے ہونہار اور لائق شاگردوں میں سے تھے۔
مخدوم صاحب کی پوری زندگی قال اللہ و قال الرسول میں گزری۔انہوں نے نہ صرف یہ کہ اسلام کی تبلیغ کی بلکہ اسلام کے مایہ ناز مبلغین بھی پیدا کیے۔ علم و معرفت کا یہ آفتاب 14 رمضان 1224ھ بمطابق 23 اکتوبر1809ء میں ہمیشہ کے غروب ہو گیا۔ آپ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی، صرف تین صاحبزادیاں تھیں جو سب دینی علوم سے آراستہ و پیراستہ تھیں۔
نامور ادیب حکیم فتح محمد سہوانی کی نانی صاحبہ جن کا نام ماہ بی بی تھا وہ آپ کی سگی نواسی تھیں۔ کیونکہ آپ کا کوئی صاحبزادہ نہیں تھا اس لیے آپ نے اپنی زندگی میں اپنے بھتیجے اور مخدوم محمد حسن کے صاحبزادے مخدوم محمد عارف کو اپنا سجادہ نشیں، فتویٰ اور تصوف کا وارث مقرر کر دیا تھا۔