گورونانک دیوجی کے 550 ویں جنم دن کے موقع پر بھولا بسرا کرتارپور پوری آب و تاب کے ساتھ پوری سکھ برادری کے لیے اُن کا ویٹی کن بن کے اُبھرا ہے۔
اس نیک کام کے دو سیوکوں آرمی چیف جنرل باجوہ اور نجوت سنگھ سدھو نے جو پیمان عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں باندھا تھا اُس کا پہلا مرحلہ کمالِ ہنر و فن اور سبک رفتاری سے اپنی تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔
جس میں مرکزی مقام گردوارہ دربار صاحب کی بحالی اور اس کی عظیم الشان توسیع کی جا چکی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسی پہلی راہداری (کرتارپور) کا معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت یاتریوں کو گورداسپور کے ڈیرہ بابا نانک سے گردوارہ دربار صاحب تک بغیر ویزہ کے رسائی مل گئی ہے۔
72 برس کے بعد سکھوں کو سکھ مت کے بانی گورو پورب بابا نانک کی آخری قیام گاہ کے درشن نصیب ہوں گے۔ گورونانک پیدا تو تلونڈی (موجودہ ننکانہ صاحب) میں ہوئے تھے، لیکن اُن کا مستقل بسیرا کرتارپور میں ہوا۔
جب 1920میں گوردوارہ دربار صاحب سیلاب کی نذر ہو گیا تو کیپٹن امریندر سنگھ کے دادا پٹیالہ کے مہاراجہ بھویندر سنگھ نے اس کی تعمیر نو کی تھی اور برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ساتھ جب پنجاب تقسیم ہوا اور گورداسپور ریڈکلف کی ریڈلائن کی نذر ہو گیا تو سکھوں کی رسائی اپنے مرشد کی آخری آرامگاہ تک ختم ہو کے رہ گئی۔
گورونانک پیدا تو ایک ہندو گھرانے میں ہوئے تھے لیکن وحدانیت، ویدانت، سریت اور وحدت الوجود کی جانب راغب ہو گئے۔ وہ کبیر اور بابا فرید شکر گنج کی طرح سریت، ویدانت اور بھگتی لہر اور صوفیا کے تصورات اور عرفان سے بہت متاثر ہوئے۔
تصوف کے ماخذوں میں بھی بدھ مت اور ویدانت کے اثرات شامل ہیں۔ گرونانک انسانی بھائی چارے، انسانی خدمت، رواداری، فقر اور زُہد کے قائل تھے اور استحصال کے خلاف۔ گروگرنتھ صاحب میں جو رہنما اُصول بیان کیے گئے ہیں اُن میں پہلے اُصول ’’نام جپنا‘‘ کا مطلب ہے ’’نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللّٰہ کے‘‘ اور سکھوں کا رب بھی مسلمانوں کے رب کی طرح ایک ہے، جو صوفیا کے فلسفۂ وحدت الوجود کی طرح کثرت میں وحدت کا مظہر ہے اور جو نرگن (Without Form) ہے۔
دوسرا اُصول ’’ونڈچکو‘‘ یعنی مل کے کھائو یا اشتراک کرو اور تیسرا اُصول ’’کرت کرو‘‘ جو استحصال، مایا اور منمکھ (ذاتی مفاد اور نجی ملکیت کے خلاف) کے بجائے گرمکھ یعنی گرو کی راہ میں ساری لوکائی کی خدمت۔ گورو نانک ذات پات اور رنگ و نسل کی تقسیم کے خلاف تھے اور سارے وحدانی مذاہب کی سچائی کو مانتے ہوئے مذہبی بنیادوں پر انسانوں کی تقسیم کے خلاف تھے۔ سکھوں کی علیحدہ شناخت کے چار کاف دسویں اور آخری گرو نے 1699میں لازمی قرار دیئے۔
جب یہ سطور شائع ہوں گی تو وزیراعظم عمران خان اس راہداری کا باقاعدہ افتتاح کر چکے ہوں گے جبکہ بھارت کی سپریم کورٹ بابری مسجد کے ڈھیر پر رام جنم بھومی کیس کا فیصلہ سنا چکی ہوگی۔ پاکستان میں کشمیریوں پہ 95 روز سے جاری اجتماعی نظربندی یا غیرانسانی کرفیو کے حوالے سے کرتارپور کی راہدار کھولنے کے وقت پر بےجا اعتراض ہو رہے ہیں حالانکہ اس کا اعلان سال بھر پہلے ہوا تھا اور اس کے وقت کا تعین گورونانک کے 550ویں جنم دن کے موقع کی مناسبت سے کیا گیا تھا۔
کسی کو خبر نہ تھی کہ مودی حکومت انتخابات کے موقع پر اتنی کشیدگی بڑھا دے گی اور بعد ازاں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھی ختم کر دے گی۔ بھارت میں اور دُنیا بھر میں جہاں سکھ مت کے پیروکاروں میں پاکستان کے اس احسن اقدام کی بے انتہا توصیف کی جا رہی ہے وہاں بھارت میں ہندوتوا کے زیرِ اثر ڈیپ اسٹیٹ سلامتی کے حوالے سے گہرے خدشات کا اظہار کر رہی ہے۔
درحقیقت پاک بھارت مناقشہ اتنا گہرا ہے کہ کسی بھی اعتماد سازی، لوگوں میں میل ملاپ اور بین المذہبی رواداری کے اقدام پر سلامتی کے شک و شبہے کے سائے منڈلاتے رہیں گے۔
مجھے یاد ہے کہ سافما (SAFMA)کے پلیٹ فارم سے جب ہم کشمیر گئے تھے اور وہاں سے صحافی آزاد کشمیر آئے تو اس پر گہرے شک و شبہ کا اظہار کیا گیا تھا لیکن اُس کے نتیجے میں منقسم کشمیر کے مابین نہ صرف کشمیریوں کی آمد و رفت بلکہ تجارت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اسی طرح جب ہم نے پنجاب پنجاب عوامی تبادلوں کا سلسلہ شروع کیا تھا تو دہلی میں اُس پر کافی ہچکچاہٹ دکھائی دی تھی۔
انہی تبادلوں کے دوران زیرو لائن پر ایک بڑے امن پارک کی تجویز بھی دی گئی تھی۔ اس پیس پارک کی تجویز میں بغیر پاسپورٹ اور ویزا کے عوامی میل ملاپ کی گنجائش رکھی گئی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر اس طرف وزیراعلیٰ شہباز شریف ہوں یا وزیرِاعلیٰ پرویز الٰہی، نواز شریف ہوں یا چوہدری شجاعت حسین، پنجاب پنجاب تعاون کے لیے پُرجوش تھے۔ وہاں اُس طرف چیف منسٹر کیپٹن امریندر سنگھ (کانگریس) اور چیف منسٹر پرکاش سنگھ بادل (اکالی دل + بی جے پی) خاصی گرمجوشی کا اظہار کر رہے تھے۔
آج جب مولانا فضل الرحمٰن کرتارپور راہداری پہ اعتراض کر رہے ہیں تو مَیں اُنہیں اُن کی مولانا ڈپلومیسی کی عمدہ کوشش کا واقعہ یاد دلانا چاہوں گا۔ مَیں بھی اُس دورے میں اُن کے ساتھ دہلی میں شامل ہوا تھا اور اُنہوں نے وشوا ہندو پریشد اور بھارتی جنتا پارٹی کے ساتھ ہونے والے اجلاسوں میں نہ صرف پاکستان کے ساتھ امن بلکہ بھارت میں مسلمانوں اور ہندوئوں کے مابین بقائے باہم کے لیے بڑی پیش رفت کی تھی۔
اب بھی میں یہ کہوں گا کہ کشمیر کے معاملے پر جمہوری حقوق اور حقِ خودارادیت کے سوال پر اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے اور اس کے پُرامن حل کی جستجو میں اگر کوئی مثبت اقدامات کے مواقع ملتے ہیں تو انہیں کیوں گنوایا جائے۔ آخر برصغیر کب تک علاقائی مناقشوں کا یرغمال بنا رہے گا۔