• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدیوں پرانے ہندوستانی مقدس مقام کے تنازع کی اہم تاریخیں

ایودھیا (اے ایف پی)ایودھیا میں 1992 میںانتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے بابری مسجد شہید کی گئی جس کے نتیجے میں فسادات پھوٹ پڑ ےاور 2 ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔ ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین ان کے بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے اور یہ مقام بھارت کے ہندو مسلم تقسیم کی علامت بن گیا ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں کے مطابق 5114 بی سی میں ان کے بھگوان رام کی پیدائش ہوئی۔ 1528اے ڈی میں ایک سال سے زائد کے کام کے بعد بابر کے اعزاز میں مسجد تعمیر ہوئی۔ 1853 میں اس مسجد پر پہلا مذہبی تصادم سامنے آیا جب ہندوؤں نے احتجاج کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ رام کی جائے پیدائش پر مسجد تعمیر کی گئی۔ مسلمانوں نے بھی ایودھیا میں اپنا مارچ شروع کیا اور تقریباً 70افراد اس تصادم میں مارے گئے۔ دو سال بعد مسلمانوں کا ایک اور مارچ نکلا جس کا مقابلہ برطانوی اور ہندو دستوں نے کیا اور نتیجے میں سات سو افراد مارے گئے۔ ایک گائے کے مارے جانے کے بعد 1934میں مذہبی فساد میں بابری مسجد کو نقصان پہنچایا گیا۔ 1947میں برصغیر کی تقسیم سے بھارت ہندو اکثریت اور پاکستان مسلم اکثریت ملک بن گیا تو ایودھیا دو مذاہب کے درمیان میدان جنگ بن گیا۔22دسمبر1949کو درجنوں افراد مسجد میں داخل ہوئے اور اپنے بھگوان رام اور سیتا کے بت رکھ دئیے۔ اگلے ہی روز ہزاروں ہندو مسجد کے باہر جمع ہوگئے اور اسے ایک معجزہ سمجھنے لگے۔ وفاقی عدالتوں نے حکم دیا کہ بتوں کو ہٹایا جائے لیکن مقامی عدالتوں نے کارروائی کرنے سے انکار کردیا۔ 1986 میں ایک بنیاد پرست گروہ نے نئے مندر کیلئے اینٹیں اکٹھا کرنے کی مہم شروع کی جسے بھارت کے ساتھ ساتھ امریکا، کینیڈا اور یورپ سے ان کے حامیوں نے چندے بھیجے۔ 1990 میں ایل کے ایڈوانی نے مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کیلئے ہندوؤں کے جلوس کی رہنمائی کی۔ بھارتی فوج نے جلوس روکا اور ایڈوانی کو گرفتار کرلیا۔ تقریباً 30 ہندو مارے گئے۔6 دسمبر 1992 کو تقریباً 2 لاکھ ہندو ایودھیا میں اکٹھے ہوئے اور انہوں نے بابری مسجد شہید کرڈالی۔ اس واقعے سے ملک بھر میں فسادات پھوٹ پڑے اور 2 ہزار افراد مارے گئے۔ مسجد کی دسویں برسی سے قبل فروری 2002 میں ایودھیا سے ہندوؤں کو لے جانے والی ایک ٹرین میں ریاست گجرات میں آگ بھڑک اٹھی اور تقریباً60ہندو جل کر مر گئے۔ اس ریاست میں مسلم مخالف فسادات کے باعث2ہزار افراد مارے گئے۔ 2010میں الہٰ آباد میں عدالت نے حکم دیا کہ مسجد کے مقام کو تین ہندو اور مسلمان گروہوں کے درمیان تقسیم کردی جائے جس کے خلاف تمام فریقین نے اپیل دائر کردی۔
تازہ ترین