• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

قارئین کرام! 9نومبر کا پورا دن پاک، بھارت سرحد کے قریب کرتارپور کوریڈور کی افتتاحی تقریب میں گزرا۔ کئی روز سے سینکڑوں میلوں پر پھیلے سرحدی علاقے پر تنی غبار چھٹ چکی تھی۔ تیز چمکتی دھوپ کی خوشگوار حدت آمدِ سرما کا ہی پتا نہیں دے رہی تھی بلکہ کئی ماہ سے اس سرحدی علاقے میں جھڑپوں، دفاعی تیاریوں اور دونوں جانب کے دیہات میں جو تشویش پائی تھی بابا گرونانک کی گہری عقیدت میں ڈوبے دیس دیس سے آئے سکھ یاتریوں کی جوق در جوق آمد سے جیسے یکسر ختم ہو گئی۔ فصلوں کے بیچوں بیچ بابا گرونانک کا گائوں اور گردوارہ شہرِ نانک میں تبدیل ہو چکا تھا۔ فقط دس ماہ میں 4ایکڑ رقبے کے گردوارے کی تعمیرِ نو اور توسیع 42ایکڑ تک محیط ہو گئی۔ گردوارہ کرتارپور سکھ مت کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے جہاں حضرت گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری اٹھارہ سال گزارے۔ انہوں نے واحدنیت پر مبنی سکھ مذہب کی تعلیمات اور فلسفۂ امن کو یہیں رہ کر مکمل کیا، اس لحاظ سے بھارت کی سرحد سے فقط چار کلومیٹر پاکستان کی جانب ضلع نارروال کا یہ مقام دنیا بھر کے 14کروڑ سکھوں کا انتہائی متبرک مقام ہے، وہ گزشتہ 72سال سے ویزہ اور دیگر پابندیوں اور ناسازگار ماحول کے باعث یہاں آزادانہ طور پر نہیں آپا رہے تھے۔ بقول نوجوت سنگھ سندھو ہمارے کتنے ہی بزرگ ہمارے اس مقدس ترین مقام کے درشن کی حسرت لئے دنیا سے رخصت ہوگئے۔

میڈیا پر آپ تقریب کی تمام تفصیلات جان چکے ہیں اور پس منظر میں اس روز امن و آتشی کی خبروں اور تجزیوں کا جو سلسلہ چلا تھا، وہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں تنائو اور جنگ کے خطرات کے ساتھ کم نہیں ہوا۔ یہ پاکستانی حکومت اور ملٹری کی حسین امن پالیسی اور حکمت رہی کہ جوں جوں، مسئلہ کشمیر پر بھارت کی بنیاد پرست حکومت کے جارحانہ اقدامات سے صورتحال سنگین ہوتی گئی، پاکستان نے اپنے اس پیس آفینس (اس حملے) کو ناصرف روکا نہیں بلکہ اس میں اور تیزی لے آیا۔ اس میں وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی کمنٹمنٹ نے شدید جنگی ماحول میں پروجیکٹ کو مکمل کرکے ’’پیس افینس‘‘ کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔

بلاشبہ جب تک 100روز سے کشمیری مقبوضہ کشمیر میں محبوس ہیں، پاکستان اور بھارت حالتِ جنگ میں ہیں، انہیں بھارتی افواج کے چنگل سے جلد سے جلد آزاد کروانا اور پھر اقوامِ متحدہ کی منظور قراردادوں کے مطابق حقِ خود ارادیت دلوانا پاکستان کی دفاعی و عسکری پالیسی کا بڑا اور بنیادی لازمہ ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے لیکن دنیا نے دیکھا کہ پاکستان جنگ ایسے ماحول میں جبکہ دونوں طرف سے ذمہ داران کی طرف سے آخری حد تک جانے اور ایٹمی جنگ میں پہل نہ کرنے کی پالیسی ترک کرنے کے اعلانات ہوئے، پاکستان نے کرتار پور کاریڈور کی اوپننگ کو ممکن بنانے کے لئے اپنا ’’امن حملہ‘‘ جاری رکھا جو اتنا کامیاب رہا کہ مقبوضہ کشمیر کے بعد پاکستان کے شکریے کی ادائیگی کے لئے پاکستانی پرچم امرتسر اور جالندھر کی چھتوں پر لہرا گئے۔ جب وزیراعظم عمران خان اور ان کا کرکٹر یار نوجوت سنگھ سدھو افتتاحی تقریب سے خطاب کررہے تھے، تو ان کی اردو پنجابی سے سکین ہو کر امن کے پیغامات کی سمجھ اسلام آباد سے آئے دنیا بھر کے سفیروں کو بھی آرہی تھی۔

میں نے بھارت کے علاوہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، ملائیشیا، یورپ اور کتنے ہی ملکوں سے آئے نئے اور رنگ برنگ لباس میں ملبوس خواتین و حضرات یاتریوں کی خوشی و شکرانے کا عالم ان کے ہجوم میں تین گھنٹے گزار کر پڑھا۔ ایک ضعیف خاتون خواتین کی ایک ٹولی کے ساتھ میرے قریب بیٹھی ایک بزرگ خاتون کو آکر کہتی ہیں’’آج تو بڑی خوش لگ رہی ہیں، میری بہن نے کتنا خوبصورت جوڑا پہنا ہے‘‘ جواب آیا ’’کیوں نہ خوش لگیں بابا نانک کے دربار میں آئے ہیں اور اپنی مائوں باپوں کے وطن میں بیٹھے ہیں‘‘۔ یاتروں کی اکثریت نئے اور چمک دمک والے رنگا رنگ لباسوں میں ملبوس تھی اور خوشی باشی ہر چہرے پر نظر آرہی تھی۔ ادھر سرحد کے اس پار بھی جنگی جنون میں مبتلا اور مقبوضہ کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھانے والے وزیراعظم مودی بھی اپنی جانب کاریڈور کی افتتاحی تقریب میں سکھوں کے مذہب کے احترام میں کرتارپور تک ہر سکھ کی پہنچ کو آسان تر بنانے پر پاکستان کا شکریہ ادا کرنے پر مجبور ہو گئے لیکن اس روز بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے ہندو بنیاد پرستوں کے ہاتھوں انہدام کے خلاف مسلمانوں کے دائر کردہ 26سالہ مقدمے کا فیصلہ آیا جس میں مودی نواز انتہا پسند ہندوئوں کے اس موقف کو درست مان لیا گیا کہ مسجد کی جگہ یہاں اب رام مندر بنے گا، جسے فوراً مسلمانوں نے قبول نہ کرکے اس کے خلاف نظرثانی کی اپیل کا فیصلہ کیا ہے۔

گویا ایک جانب کلیش اف سِولائزیشن کی تھیوری سوویت یونین ختم ہونے کے بعد بھی جنگوں اور تصادم کو جاری رکھنے کی راہیں نکالنے کی اپروچ، برصغیر میں ہندو مسلم تصادم نفرت اور نئے گیپس پیدا کرکے دنیا کے امن کے لئے بددستور خطرہ بنی ہوئی ہے۔ دوسری جانب، پاکستان اور بھارت میں مکمل جنگی ماحول میں اسلام آباد کے پیس آفینس(امن حملے) نے بھارتی سرزمین پر پاکستانی پرچم لہرا دئیے اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کو جمعہ کے اجتماع کی اجازت تو کئی ماہ سے نہیں مل رہی۔ عیدِ میلادالنبیؐ کے جلوس کی بھی نہ ملی۔ یہ دنیا ہے، یہاں پروفیسر ہنگ ٹینگٹن اور مودی بھی بستے ہیں اور عمران خان اور قمر جاوید باجوہ بھی۔

تازہ ترین