• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام کی سربلندی، دعوت و تبلیغ، انسانیت کی خدمت اور دفاع کے لیے مساعی اور نفس کی اصلاح یہ سب جہاد کی مختلف شکلیں ہیں۔اسی کی ایک قسم جنگ بھی ہے،جسے قرآنِ کریم نے’’ قتال‘‘ یا’’ جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کہا ہے۔ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے قتال تمام آسمانی مذاہب کا جُزو رہا ہے اور اسلام نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا۔ نبی کریمﷺ نے ظلم وستم کی انتہا کے باوجود مخالفین کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے اور مدینہ منوّرہ ہجرت کے بعد بھی ایک پُرامن فضا قائم کرنے کی کوشش کی، اس مقصد کے لیے مخالفین سے معاہدے بھی کیے۔ 

تاہم، کفّارِ مکّہ اور اُن کے اتحادیوں کی جانب سے مسلمانوں پر جنگ تھوپنے کی اعلانیہ اور خفیہ سازشیں ہوتی رہیں، جن کا مسلمانوں نے بھی بھرپور انداز میں جواب دیا۔کفّار کے خلاف ان جنگوں میں نبی کریمﷺ خود بھی شریک ہوئے اور کئی بار صحابۂ کرامؓ پر مشتمل چھوٹے لشکر بھی سازشیوں کو کچلنے کے لیے روانہ کیے۔ ان جنگوں کو غزوات اور سرایا کی دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین اس نئے سلسلے میں ان ہی جنگوں سے متعلق تفصیلی نگارشات ملاحظہ فرمائیں گے۔ جن سے ایک طرف اسلام کے لیے دی گئی لازوال قربانیوں سے آگاہی حاصل ہوگی، تو دوسری طرف، اُن جنگوں کا پس منظر بھی سامنے آجائے گا۔ جس سے یقیناً جہاد کے خلاف ہونے والے پراپیگنڈے کا بھی کچھ توڑ، سدّ ِباب ممکن ہو سکے گا۔

………٭…٭…٭…٭…٭…٭………

’’ غزوہ‘‘ اُس مہم کو کہتے ہیں، جس میں رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس شریک ہوئے۔ غزوہ کی جمع، غزوات ہے۔ تاہم، ضروری نہیں کہ اس میں دشمن سے لڑائی بھی ہوئی ہو۔ کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی غزوے میں تشریف لے جاتے، تو عموماً کفّار بھاگ جایا کرتے تھے۔ آپﷺ اُس مقام پر کم از کم تین روز قیام فرمایا کرتے۔ قُرب وجوار کے قبائل کو اسلام کی دعوت دیتے۔ جب کہ’’ سَرِیّہ‘‘ ایسی مہم کو کہا جاتا ہے، جس میں آنحضرتﷺ خود شامل نہیں ہوتے تھے۔ ان میں سرحدوں پر گشت، دشمن کی نقل و حرکت پر نظر، تعلیمی، دفاعی اور دیگر مختلف اُمور پر بھیجے گئے دستے، انفرادی تصادم یا واقعات شامل ہیں، یہ سب سرایا(سَرِیّہ کی جمع) کہلاتے ہیں۔غزوات اور سرایا کی کُل تعداد کتنی ہے؟ اس بارے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے۔ طبقات ابنِ سعدؒ میں درج حضرت موسیٰ بن عقبہ بن ربیعہ کی روایت کے مطابق کُل غزوات 27ہیں، جن میں سے 9 میں آپؐ نے قِتال(جنگ، لڑائی) فرمایا، جب کہ سرایا 47ہیں۔اس طرح غزوات اور سرایا کی کُل تعداد74بنی۔

جہاد و قتال … معنی و مفہوم

جہاد، جہد سے ہے، جس کے لغوی معنی ’’جدوجہد اور کوشش ‘‘کے ہیں۔ اسلام میں لفظ جہاد بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ مسلمانوں کے ایمان کا حصّہ ہے، جس کے معنی ہیں’’ اللہ کی راہ میں اُس کی خوش نودی اور رضا کے لیے بھرپور جدوجہد، خُوب محنت اور بہت زیادہ کوششیں کرنا۔‘‘ جہاد کی مختلف اقسام ہیں، جیسے جہاد بالعلم، جہاد بالنّفس، جہاد بالعمل، جہاد بالمال اور جہاد بالقتال۔ جہاد بالقتال کا مطلب،’’ اللہ کی راہ میں، اللہ کے دشمنوں سے لڑنا‘‘ ہے۔قرآنِ کریم میں قتال کا لفظ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے دشمنوں سے جنگ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ہجرت سے پہلے کفّار کے ساتھ جنگ ممنوع تھی۔ ظلم و بربریت کے اُس دَور میں کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا، جب مسلمان کفّار کے ہاتھوں تشدّد کا شکار نہ ہوتے۔مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد ہو چُکی تھی، وہ آپؐ سے جوابی کارروائی کی اجازت طلب کرتے، لیکن آپؐ فرماتے’’ مجھے ابھی اللہ کا حکم نہیں ملا۔‘‘ 

اس دوران نازل ہونے والی تمام آیاتِ مبارکہ میں صبر، عفو و درگزر کی تلقین کی جاتی رہی۔ مدینہ منوّرہ ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے مشروط طور پر جنگ کی اجازت دی۔پھر یہ کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا، بلکہ انبیائے سابقینؑ اور اُن کی اُمّتوں کو بھی کفّار سے قتال کا حکم دیا گیا تھا، کیوں کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا، تو کفّار اہلِ ایمان کو قتل کر دیتے اور عبادت گاہیں ڈھا دیتے۔(معارف القرآن 270/6 )جہاد، تزکیۂ نفس کا بہترین ذریعہ ہے اور نفس کے ساتھ جہاد کو’’جہادِ اکبر‘‘ کہا گیا ہے۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ سے واپس آنے والے صحابہؓ سے فرمایا’تمہارا آنا مبارک ہو، تم چھوٹے جہاد(غزوے) سے بڑے جہاد کی طرف آئے ہو۔ بڑا جہاد، بندے کا اپنے نفس سے لڑنا ہے۔‘‘ کچھ عورتیں نبی کریمﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا،’’ یا رسو ل اللہﷺ! ہمیں غزوات میں شرکت کی اجازت دی جائے۔‘‘ ارشاد ہوا’’ تمہارا جہاد، حج ہے‘‘ ( صحیح بخاری، کتاب الجہاد)۔ یعنی سفرِ حج کی صعوبتیں برداشت کرنا، صنفِ نازک کا جہاد ہی ہے۔ایک صحابیؓ یمن سے چل کر خدمتِ اقدسؐ میں حاضر ہوئے اور جہاد میں شرکت کی اجازت چاہی۔آپﷺ نے فرمایا’’کیا تمہارے والدین حیات ہیں؟‘‘ اُس نے عرض کیا’’ جی ہاں۔‘‘ اس پر آپﷺ نے فرمایا’’ واپس جائو اور اُن کی خدمت کرو، یہی جہاد ہے‘‘(ابو دائود، ترمذی)۔اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کسی ظالم وجابر کے سامنے حق بات کہنا جہاد ہے‘‘(ترمذی)۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان کی تو پوری زندگی ہی جہاد ہے۔

اہلِ مغرب کا منفی پروپیگنڈا

اہلِ سیر نے غزوات اور سرایا کی جو طویل فہرست قلم بند کی ہے، اُس میں اہلِ مغرب کی شروع سے دِل چسپی رہی ہے۔ حقائق، اسباب اور تفاصیل جانے بغیر ہی مغربی مؤرخین نے ان غزوات اور سرایا کو غلط معنی و مفہوم دے دئیے۔یہاں تک کہ اُنھوں نے ان لڑائیوں کو تلوار کے ذریعے اسلام پھیلانے اور لوٹ مار کی کارروائیاں قرار دے ڈالا۔ 

اس طرح غیر مسلم مؤرخین نے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے نظریۂ جہاد اور اُس کے حقیقی مقاصد مسخ کرنے کی سازشیں کیں، جو اب بھی جاری ہیں۔ پھر افسوس کا مقام تو یہ بھی ہے کہ اسلامی تعلیمات سے پوری طرح واقف نہ ہونے والے مسلمان بھی، متعصب مؤرخین کے مکروہ پراپیگنڈے کا شکار ہو کر معذرت خواہانہ رویّہ اختیار کرتے ہوئے جہاد سے لے کر حجاب تک، ہر اسلامی تعلیم، دینی احکام کو نام نہاد ترقّی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ بیٹھے۔

الگ الگ پیمانے

مغرب اور دشمنانِ اسلام نے جہاد جیسے وسیع مفہوم کے حامل لفظ کو جنگ کے تنگ معنوں میں محصور کر دیا ۔ اُن کے نزدیک جہاد، جنگی جنون کا نام ہے، جس میں مذہبی دیوانوں کا کوئی گروہ ہاتھوں میں ہتھیار پکڑے ہر غیر مسلم کی جان کے دَرپے رہتا ہے۔ یہاں تک کہ مظلوم مسلمان عورتوں اور بچّوں کی ظلم و استبداد کے خلاف آزادی کی تحریکوں کو بھی’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کا نام دے دیا گیا۔

حالاں کہ اسلام کے تو معنی ہی سلامتی کے ہیں، اس کا پیغام امن اور محبّت ہے، تو بھلا ایسا مذہب اپنے ماننے والوں کو کیسے بے قصور افراد کی جان لینے کی ترغیب یا حکم دے سکتا ہے…؟؟؟دنیا کا عجیب رویّہ ہے۔ بھارت، کشمیر پر قابض ہو کر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے، تو یہ اُس کا اندرونی معاملہ ہے،اسرائیل بیتُ المقدِس پر قبضہ کر کے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر دے، تو وہ حق بہ جانب ۔ امریکا، افغانستان اور عراق میں خون کی ندیاں بہا کر شہروں کو ملبے کا ڈھیر بنادے، تو جائز ، لاکھوں کالوں کی شناخت ختم کرکے اُنہیں غلام بنا کر بیگار کروائے تو اُس کا حق ، ہیروشیما، ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر لاکھوں جاپانیوں کو خاکستر کردے، تو وہ بھی درست ، ویت نام پر بم باری کرکے تباہی مچائے، تو ٹھیک۔ 

لیبیا میں قذافی، مِصر میں اخوان کا تختہ اُلٹ کر پھانسیوں پر لٹکانا انصاف ٹھہرا۔ درحقیقت را، موساد اور سی آئی اے کے پیشہ ور ایجنٹس کے ذریعے دنیا بھر میں بم دھماکے کروا کر اُنہیں’’ اسلامی دہشت گردی‘‘ قرار دینا اسلام کے مقدّس، پاکیزہ چہرے اور جہاد کے عظیم مقاصد کو مسخ کرنے کا عالمی ایجنڈا ہے، جس کے خالق امریکا، اسرائیل اور بھارت ہیں۔

جنگوں میں اموات کے اعداد وشمار

دس سالہ مَدنی دور میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 27غزوات اور 47 سرایا ہوئے۔ ان جنگوں میں شہید ہونے والے مجاہدین کی تعداد صرف 255 تھی، جب کہ 759 کفّار مارے گئے۔ جنگی قیدیوں کی تعداد 6,564 رہی۔ عرب کے جنگی اُصولوں کے تحت ان سب کو قتل کردینا چاہیے تھا، لیکن نبیٔ رحمتﷺ نے6347 قیدیوں کو رہا فرما دیا۔ 215 کے بارے میں اغلب گمان یہی ہے کہ اُنھوں نے اسلام قبول کرلیا ، صرف 2قیدی ایسے تھے کہ شدید جنگی جرائم کی بناء پر اُنہیں سزائے موت دی گئی۔(رحمت اللعالمینؐ، قاضی سلیمان منصور پوری 265/2) یہ اعداد و شمار خود اس بات کے گواہ ہیں کہ مسلمانوں کو زبردستی جنگ میں دھکیلنے کے باوجود اُنہوں نے اپنے جانی دشمنوں کے ساتھ نیک سلوک اور صلۂ رحمی کا مظاہرہ کیا۔ 

اس کے برخلاف، ذرا دنیا میں ہونے والی جنگوں کو دیکھیں، خواہ وہ منگولوں کی مہم جوئی ہو یا سکندرِ اعظم کی فتوحات۔ جولیس سیزر، نپولین، ہٹلر کی مہمّات ہوں یا روس اور فرانس کے انقلابات یا امریکا کی سِول وار۔ جنگِ عظیم اوّل ہو یا دوم، ان تمام جنگوں میں دنیا انسانی خون سے رنگین ہوگئی۔ پھر یہود و نصاریٰ کی مذہبی جنگیں بھی دیکھ لیں، جن میں خونِ انسانی کے دریا بہائے گئے۔ ایک طرف یہ قتل و غارت گری ہے اور اس کے مقابلے میں انقلابِ محمّدیﷺ کے نتائج، جو معترضین کی تسلّی کے لیے کافی ہیں، بشرطے کہ وہ واقعتاً مطمئن ہونا چاہتے ہوں۔

امن کی کوششیں

مدینے میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد عرب میں واضح طور پر دو قوّتیں ایک دوسرے کے مدِمقابل تھیں۔ ایک راہِ حق کے متوالے، جو رسول اللہﷺ کی رہنمائی میں ظالمانہ، جاہلانہ نظام کے خاتمے اور اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھے اور دوسری بدی کی وہ قوّت، جو شیطان کی آلۂ کار، فرسودہ گھنائونے نظام کی محافظ اور360 بُتوں کی پیروکار تھی۔ آنحضرتﷺ نے اپنے مکارمِ اخلاق، محاسنِ اعمال اور اعلیٰ خداداد صلاحیتوں کی بدولت بہت جلد اہلِ مدینہ کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ 

آپﷺ کی پہلی ترجیح قریش سمیت تمام قبائل اور مذاہب میں ہم آہنگی اور امن و سلامتی کا قیام تھا۔ آپﷺ کی کوشش، جستجو اور شدید خواہش تھی کہ مدینے سمیت تمام عرب میں مثالی امن و امان اور خوش حالی ہو، جس کے حصول کے لیے آپؐ نے دو انتہائی اہم اقدامات کیے۔ پہلا تو یہ کہ مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں جتنے بھی یہودی اور دیگر قبائل تھے، اُن سب سے امن کے تحریری معاہدے کیے اور دوسرا کام یہ کہ مدینے کے تمام سرحدی راستوں پر مسلّح گشتی دستے متعیّن فرمائے تاکہ دشمنانِ اسلام جان لیں کہ مسلمان ہر شرارت اور جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔

مسلمانوں پر جنگیں مسلط کی گئیں

عبداللہ بن اُبئ مدینہ منورہ کا ایک طاقت وَر، بااثر، چالاک اور سازشی مشرک تھا۔ مدینے کے دونوں قبیلوں اوس اور خزرج کی آپس کی لڑائی’’جنگِ بعاث‘‘ نے اُنہیں کم زور کردیا تھا اور اب یہ دونوں قبیلے عبداللہ بن اُبئ کے زیرِ اثر تھے۔ یہ لوگ اُس کی قائدانہ صلاحیتوں کے اتنے معترف تھے کہ اُسے اپنا بادشاہ بنانا چاہتے تھے، لیکن رسول اللہﷺ کی مدینہ منوّرہ تشریف آوری کے بعد اُس کی تمام اُمیدیں، آرزوئیں خاک میں مل گئیں۔وہ رسول اللہﷺ کو اپنا دشمن تو سمجھتا تھا، لیکن منافق ہونے کی بناء پر اس کا اظہار نہیں کرتا تھا۔ قریش نے اُسے خط لکھا ’’تم نے ہمارے آدمی کو پناہ دی ہے، ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تم لوگ یا تو اُن کو قتل کر ڈالو یا اُنہیں مدینے سے باہر نکال دو۔ ورنہ ہم سب لوگ تم پر حملہ کرکے تمہارے تمام مَردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری عورتوں کو پامال کر ڈالیں گے‘‘ (ابو دائود)۔ 

خط موصول ہوتے ہی عبداللہ بن اُبئ نے اپنے تمام رفقاء کو جمع کرلیا تاکہ اُن سے قریش کی مدد و حمایت کا حلف لے سکے۔ آنحضرتﷺ کو جب اس کی خبر ملی، تو آپﷺ فوری طور پر اُس اجلاس میں تشریف لے گئے اور فرمایا’’ قریش نے تم کو دھوکا دینا چاہا ہے۔ اگر تم اُن کے دھوکے میں آگئے، تو بہت نقصان اٹھائو گے اور وہ تمہارے ہی ہاتھوں سے تمہارے بھائی، بیٹوں اور رشتے داروں کو قتل کروانا چاہتے ہیں۔ تو کیا تم اسے گوارا کرلو گے؟ اس طرح تو تم سب برباد ہوجائو گے۔‘‘ آنحضرتﷺ کی بات حاضرین کی سمجھ میں آگئی اور وہ مطمئن ہوکر چلے گئے‘‘ (ابو دائود) لیکن اس واقعے نے مسلمانوں کو مضطرب کردیا تھا۔اُن ہی دنوں ایک اور واقعہ پیش آگیا، جس نے انصارِ مدینہ کو چراغ پا کردیا۔ قبیلہ اوس کے رئیس اور سردار، حضرت سعدؓ عمرے کی ادائی کے لیے مکہ مکرّمہ گئے۔ 

وہ قریش کے ایک سردار اُمیہ بن خلف کے مہمان تھے۔ دونوں آپس میں دوست تھے۔ اُمیہ جب مدینہ آتا، تو حضرت سعدؓ کے گھر ٹھہرتا تھا۔ ایک دوپہر حضرت سعدؓ طواف کررہے تھے کہ اچانک ابوجہل آگیا۔ اُس نے حضرت سعدؓ کو اُمیہ کے ساتھ دیکھا، تو پہچان گیا۔ بولا ’’مَیں دیکھ رہا ہوں کہ تم یہاں کتنے امن، سکون اور اطمینان سے طواف کررہے ہو، حالاں کہ تم لوگوں نے بے دینوں کو(نعوذ باللہ) پناہ دے رکھی ہے اور اُن کی ہر طرح سے مدد بھی کررہے ہو۔ 

خدا کی قسم! اگر تم ابوصفوان کے ساتھ نہ ہوتے، تو یہاں سے اپنے گھر زندہ واپس نہیں جاسکتے تھے‘‘۔ حضرت سعدؓ نے جب یہ سُنا تو باآوازِ بلند کہا ’’تُو بھی سُن لے! اللہ کی قسم! اگر تُو نے مجھے اس سے روکا، تو مَیں تم لوگوں کا مدینے کے پاس سے گزرنے والا شام کی تجارت کا راستہ بند کردوں گا اور یہ تم لوگوں پر بہت گراں گزرے گا‘‘(صحیح بخاری، کتاب الغازی)۔ مشرکینِ مکّہ، یہودیوں اور منافقین کی مدد سے مدینہ منوّرہ پر چڑھائی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ رسول اللہﷺ اُن کے مذموم عزائم سے بخُوبی آگاہ تھے۔ 

اس بات کا بھی قوی امکان تھا کہ وہ کسی رات شب خون مار کر آنحضرتﷺ کو کوئی تکلیف نہ پہنچا دیں۔ چناں چہ صحابۂ کرامؓ نے آپﷺ کے حجرۂ مبارکہ کے باہر پہرہ دینا شروع کردیا۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ صحابہ کرامؓ روز رات کو پہرہ دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرما دی، ترجمہ’’اللہ آپؐ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا‘‘(سورۃ المائدہ۔67)۔ تب رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا’’ اب تم لوگ واپس جائو، اللہ جل شانہ نے مجھے محفوظ فرما دیا ہے‘‘ (جامع ترمذی)۔

جنگ کی مشروط اجازت

قریش کی مدینہ منوّرہ پر حملے کی دھمکیاں بڑھتی جا رہی تھی۔ مسلمانوں کو لُوٹنا اور مارنا پیٹنا روز کا معمول بن چُکا تھا۔ مسلمانوں پر مسجد الحرام کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی’’جن لوگوں سے جنگ کی جا رہی ہے، اُنہیں بھی لڑائی کی اجازت دی جاتی ہے، کیوں کہ وہ مظلوم ہیں اور یقیناً اللہ اُن کی مدد پر قادر ہے‘‘ (سورۃ الحج، 39)۔امام بخاریؒ فرماتے ہیں، یہ وہ پہلی آیت ہے، جس میں جنگ کی اجازت دی گئی۔ تاہم، تفسیر ابنِ جریر میں ہے کہ قتال سے متعلق پہلی آیت یہ نازل ہوئی’’اور اللہ کی راہ میں اُن لوگوں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں۔‘‘ (سورۃ البقرہ، 190)۔

(جاری ہے)

تازہ ترین