• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا دل تو کہہ رہا ہے کہ کرتارپور راہداری آتی صدیوں میں داخلے کے لیے ایک کامیاب جست ہے۔ یہ تاریخ ساز کارنامہ ایسے دو حکمرانوں سے سر زد ہوا ہے جو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے قائل ہیں اور نریندرمودی تو پھول کا جواب بھی پتھر سے بلکہ خنجر سے دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ بچپن میں اسٹیشن پر چائے بیچنے سے لے کر ہندوستان کے جنگلوں، پھر شہروں میں ان کے ساتھ جو ناانصافیاں ہوئیں اس کا بدلہ وہ پورے جنوبی ایشیا بلکہ دنیا سے لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ تاریخ کا جبر ہے کہ انہیں امن کی اس راہداری کی تعمیر میں شامل ہونا پڑا۔

میری طرح آپ اور تاریخ کے سب طالب علم ان سوچوں میں گم ہیں کہ کیا یہ 4½کلومیٹر کی راہداری گوادر سے آسام تک امن کا وسیلہ بن سکے گی۔ مودی کے ہوتے ہوئے تو یہ امید نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ ایک انتہا پسند ہیں لیکن کیا بھارت کے کروڑوں دانشور، پروفیسر، صحافی، ادیب، شاعر، فلمساز، اداکار، ڈرامہ نگار سب ’’مودیائے‘‘ گئے ہیں۔ سب زباں دراز چپ ہیں۔ امن کی یہ شمع روشن ہونے پر انہیں پاکستان کا ممنون ہونا چاہئے تھا۔ یہ ہم پاکستانی ہی جانتے ہیں کہ عین اس وقت جب ہمارے قریباً ایک کروڑ کشمیری بھائیوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ 100سے زیادہ دنوں سے رابطے منقطع ہیں۔ بد ترین کرفیو ہے۔ اس کشیدگی کے دوران بھی اگر پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے کرتار پور کے گوردوارے اور راہداری کو شاندار طریقے سے تعمیر کرکے گورو نانک کے 550ویں جنم دن پر کھول دیا ہے تو یہ قیامِ امن کی دلی خواہش کا مظہر ہے۔ ہمیں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس ہورہا ہے۔

انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ ہسٹاریکل ریسرچ نے کرتارپور سے متعلق ایک تحقیقی دستاویز ترتیب دی ہے جس میں بھارتی میڈیا کے ادارتی ردّ عمل کے نکات بھی شامل ہیں۔ اس سے بھارت کا اجتماعی مزاج سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ہم جو سکھوں کے ستائے ہوئے ہیں۔ میرے تایا، چچا ان کے جوان بیٹے، بیٹیاں انہی سکھوں کے ہاتھوں شہید ہوئیں۔ کئی خواتین اغوا کر لی گئیں۔ میرے والد ان کی بازیابی کے لیے جھنگ سے لاہور جاتے تھے پھر ان میں سے دو امرتسر کے قریب سے مل سکیں۔ میری گزشتہ نسل کو یاد ہے کہ ماسٹر تارا سنگھ کس طرح کرپان لہراکر نعرہ لگاتے تھے۔ ’راج کرے گا خالصہ ہور کرے نہ کو‘۔ مسجد شہید گنج کون بھول سکتا ہے۔ اس کے باوجود اگر راہداری کی تعمیر کی گئی ہے تو پاکستانیوں کی نیت یہی ہے کہ برصغیر میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ انسان سکون سے مہذب انداز میں زندگی گزار سکیں۔

بھارت کے صفِ اوّل کے اخبارات نے اس تعمیر پر اپنا تبصرہ اس جذبے سے نہیں کیا ہے۔ اس سے پہلے گزشتہ 100دنوں کے دوران بھی ہم دیکھتے رہے ہیں کہ ٹائمز آف انڈیا، ہندوستان ٹائمز، انڈین ایکسپریس، دی ہندو، پرتاپ، جاگران کے صفحات میں کشمیر کے لہو کے چھینٹے کہیں دکھائی نہیں دئیے۔ پاکستان میں جب بھی مارشل لا لگے، پریس پر پابندیاں عائد ہوئیں تو بھارتی میڈیا شعلے برسانے لگتا تھا۔ بھارتی دانشوروں، ادیبوں، ایڈیٹروں سے واشنگٹن، نیویارک، لندن یا دہلی میں ملاقاتیں ہوتی تھیں تو ان کے طعنے سننے میں آتے تھے۔ اپنے جمہوری تسلسل، صحافت، عدالت کی آزادی کا بہت فخریہ ذکر ہوتا تھا۔ ہمارے بعض پاکستانی بھائی بہنیں بھی ان کے ہم نوا ہو جاتے تھے۔ ان کے اخبارات، ٹی وی اور عدالتوں کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ اب جب 100روز سے کشمیری مسلمان اپنے گھروں میں بند رہنے پر مجبور ہیں، انٹرنیٹ نہیں ہے، پورا کشمیر جیل خانہ بنا ہوا ہے تو ہندوستان کے یہ سب بقراط خاموش ہیں۔ کیا کشمیر کے مسلمان انسان نہیں ہیں۔ کسی بڑے اخبار کا اداریہ، کسی بڑے مبصر کی تحریر، کسی شاعر کی نظم، کسی ڈرامہ نگار کا ڈرامہ سامنے نہیں آیا۔ وہ ہندوستانی شاعر، ادیب، پروفیسر جو ہندوستان کے باہر امریکہ، یورپ میں مقیم ہیں، ان کا بھی کوئی تجزیہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ خاموشی، یہ جبر تو ہمارے مارشل لائوں میں بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے ہاں بھی جو محترم تجزیہ کار بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب، فاٹا کے مظلومین کے لیے آوازیں بلند کرتے تھے۔ وہ بھی کشمیریوں پر استبداد کے بارے میں چپ سادھے ہوئے ہیں۔ تاریخ شرمسار ہے۔ جغرافیہ دانتوں میں انگلی دبائے ہوئے ہے۔ کیا ہوا سیکولرازم، کیا ہوئی آزادیٔ اظہار، ہندوستان میں مسلمان پاکستان سے کہیں زیادہ ہیں۔ کیا وہ کشمیر کے مسلمانوں کو اپنا کلمہ گو بھائی نہیں سمجھتے ہیں پھر بابری مسجد کے فیصلے نے بھارتی عدلیہ کے تعصب کو اجاگر کردیا ہے۔ اس پر بھی ہندوستان کی دانش مہر بلب ہے۔ میں بھارت کے ذہین اور آزاد خیال لوگوں کو ای میل کررہا ہوں۔ واٹس ایپ، کوئی جواب نہیں۔

کرتارپور پر ٹائمز آف انڈیا، ہندوستان ٹائمز نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا پاکستان دوسرے گوردواروں تک بھی سکھوں کو رسائی دے گا۔ کسی نے بھارتی حکومت سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ پاکستان کے عقیدتمندوں کو نظام الدین اولیا، اجمیر شریف اور دوسرے مقدس مقامات تک بھی اسی طرح رسائی دی جائے۔ ایک لیفٹیننٹ جنرل کے جے سنگھ نے تو یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کرتارپور آئی ایس آئی کے K2 پروجیکٹ (کشمیر اور خالصتان) کا حصہ ہے۔ اور یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ، کینیڈا کے سکھوں نے پنجاب ریفرنڈم 2020کی جو مہم چلا رکھی ہے یہ اس کا بڑھاوا ہے۔ آزاد خالصتان کے لیے 2020میں ریفرنڈم کے لیے جو رجسٹریشن ہورہی ہے، کرتارپور راہداری اس کا پہلا قدم ہے لیکن ایک اور لیفٹیننٹ جنرل ٹی ایس شیر گل جو کرتارپور آنے والے پہلے جتھے میں شامل تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرتارپور گوردوارہ میں انہیں نہ کوئی خالصتان نواز پمفلٹ ملے، نہ ایسی کوئی بات کی گئی۔ انڈین پنجاب کے وزیراعلیٰ نے بھارت سے چلتے وقت پاکستان کے خلاف خوب ہرزہ سرائی کی لیکن کرتارپور پہنچنے پر بڑی تعریفیں کیں۔

میں تو پھر پاکستان کی یونیورسٹیوں تحقیقی اداروں پر زور دوں گا کہ وہ اس تاریخ ساز جست یعنی کرتار پور راہداری پر پاکستانی اور ہندوستانی مزاجِ عامہ کا جائزہ لیں کہ اس سرنگ کے آخر میں کیا روشنی کی کرن ہے یا یہ مودی کے ہندو توا کی گپھائوں میں گم ہو جائے گی۔ ایک کروڑ کشمیریوں پر ظلم و جبر کے ماحول اور عمومی کشیدگی کے دوران یہ تنہا قدم نتیجہ خیز ہوگا یا پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اعتماد سازی کے گزشتہ اقدامات کی طرح یہ بھی تعصب کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ ہم پاکستانیوں کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم اس بڑے قدم سے دنیا کو مجبور کریں کہ وہ کشمیریوں کی آزادی کیلئے آواز اٹھائے۔ وزارتِ خارجہ بڑی طاقتوں کے سفیروں کو کرتارپور لے کر جائے اور ہمارے سفارت خانے واشنگٹن، لندن، بیجنگ، جنیوا، اوٹاوہ میں اپنے اس تاریخی قدم پر وہاں کے حکمرانوں کو اعتماد میں لیں۔

تازہ ترین