میں اس وقت متحدہ عرب امارات کے مشہور تجارتی شہر دبئی میں موجود ہوں جہاں مجھے اماراتی وزیراعظم شیخ محمدبن راشد المکتوم کی زیرسرپرستی ورلڈ ٹالیرنس سمٹ میں خصوصی طور پر مدعوکیا گیا ہے۔دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے تحت 16نومبر کو برداشت اور رواداری کا عالمی دن منایا جاتا ہے لیکن گزشتہ برس یواے ای نے پورے سال 2019ء کو برداشت اور رواداری سے منسوب کردیا تھا۔ حالیہ منعقد کردہ یہ کانفرنس اماراتی وزیر برائے رواداری شیخ نہیان بن مبارک النہیان کی ایک عظیم الشان کاوش ہے جس میں سو سے زائد ممالک کے اعلیٰ سطحی مندوبین شریک ہیں،نمایاں شرکاء میں تاتارستان کے صدر رستم مناخانوف، ایتھوپیا کی خاتون وزیر برائے امن، یواے ای کے چیئرمین فتویٰ کونسل شیخ عبداللہ سمیت عالمی سطح کی نمایاں شخصیات شامل ہیں، پاکستان سے بطور واحد اسپیکر مجھے معاشرے میں برداشت، رواداری اور صبر و تحمل کے فروغ کیلئے میڈیا کے کردار پر گفتگو کرنے کا کہا گیا۔ شرکاء سے اظہار خیال کرتے ہوئے میرا یہی کہنا تھا کہ دنیا کا ہر مذہب دوسرے مذاہب کا احترام سکھاتا ہے، آج کے ڈیجیٹل دور میں میڈیا کا مثبت استعمال لوگوں کو قریب لانے اور چندشرپسند عناصر کوبے نقاب کرنے میں موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ میں نے اس موقع پر ایک ایسا عالمی میڈیا فورم تشکیل دینے کی تجویز پیش کی جو بغیر کسی تفریق دنیا بھر میں برداشت اور رواداری کا پیغام عام کرے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ آج اگر روئے زمین پر کوئی خطہ حقیقی انداز میں برداشت اور رواداری کی سرزمین کہلانے کا مستحق ہے تو وہ شیخ النہیان کا قائم کردہ متحدہ عرب امارات ہے۔یواے ای کے بانی بابائے قوم اور پہلے صدر شیخ زاید بن سلطان النہیان کی زندگی انتھک جدوجہد سے بھرپور تھی لیکن انکا عظیم الشان کارنامہ امارات کی سات ریاستوں کو ایک لڑی میں پروتے ہوئے متحدہ عرب امارات کی تشکیل تھا۔ یواے ای کو عالمی منظرنامہ میں جداگانہ اہمیت شیخ النہیان کی وژنری قیادت میں حاصل ہوئی جب انہوں نے اپنے وطن کو جدید سہولتوں سے آراستہ کرنے کیلئے دنیا کے تمام شہریوں پر دروازے کھول دیئے۔ ترقی و خوشحالی کے اس سفر میں انہوں نے خوشدلی سے برداشت اور رواداری پر مبنی معاشرے کو پروان چڑھانے کی ٹھانی، شیخ زاید کا شماردنیا کی امیر ترین شخصیات میں کیا جاتا تھالیکن عظیم اماراتی رہنماکی وجہ شہرت یواے ای کے طول و عرض میں اسپتالوں، تعلیمی اداروں اور فلاحی اقدامات کو عملی جامہ پہنچانا تھا۔ مرحوم شیخ زاید ہمسایہ اور دوست ممالک کے بیشتر فلاحی پروجیکٹس کی عملی امداد بھی کیا کرتے تھے۔شیخ زاید کا کہنا تھا کہ اللہ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے، اسلئے امارات میں بسنے والے سب لوگوں کو ملکی قوانین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی مرضی کا رہن سہن اختیار کرنے کی آزادی ہونی چاہیے،ایک اچھے حکمران کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی ریاستی پالیسیاں وضع کرے جسکے تحت کوئی کسی دوسرے پر اپنی رائے یا مرضی مسلط نہ کرسکے۔ مرحوم صدر النہیان خواتین کی آزادی اور مذہبی ہم آہنگی کے بھی داعی تھے، انہوں نے اپنے دور اقتدار میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی اجازت دی۔متحدہ عرب امارات کوبلند وبالا عمارات، سڑکوں کے جال ، برق رفتار سفری سہولتوں پر مشتمل دنیا کے بہترین انفراسٹرکچرکی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے ، یواے ای کی اس ترقی میں ہندوکمیونٹی کی بڑی تعداد نے فعال کردار ادا کیا لیکن ایک طویل عرصہ تک ہندوکمیونٹی اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کیلئے عبادتگاہ سے محروم تھی۔ عالمی ہندو کمیونٹی کے روحانی پیشوا پرامُکھ سوامی مہاراج نے 1997ء میں شارجہ کے صحرا میں تین باتوں کیلئے پراتھنا (خصوصی دعا)کی تھی۔اول دنیا بھر میں امن قائم ہوجائے، دوئم دنیا بھر کے مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کا احترام کریں اور نمبر تین متحدہ عرب امارات میں مندر کی تعمیر کی راہ ہموار ہو جائے۔ آخرکارہندو کمیونٹی کی جدوجہد رنگ لے آئی اور 2015ء میںابوظہبی کے کراؤن پرنس نے مندر کیلئے ساڑھے تیرہ ایکڑ رقبہ عطیہ کردیا۔ قدیم فن تعمیر کا شاہکار یہ مندر عظیم اماراتی حکمرانوں کی مذہبی ہم آہنگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔آج متحدہ عرب امارات کے عظیم بابائے قوم شیخ النہیان تو ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن موجودہ حکمران بھی اپنے ملک کو برداشت و رواداری کا گہوارہ بنانے کیلئے مرحوم لیڈر کے وژن پر عمل پیرا ہیں۔یو اے ای دنیا کا واحد ملک ہے جہاں معاشرے میں برداشت اور رواداری کے فروغ کیلئے ایک باقاعدہ وزارت قائم ہے ۔موجودہ وزیر برائے رواداری ریاستی سطح پر مختلف مکتبہ فکر کے مابین ہم آہنگی، اعتماد سازی اور پالیسی سازی کے حوالے سے مختلف اقدامات اٹھاتے رہتے ہیں۔ اسی طرح سال برائے رواداری کے تحت رواں برس عالمی کرسچین کمیونٹی کے مذہبی روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے یواے ای کا تاریخی دورہ کیا، یہ کسی بھی پاپائے اعظم کا عرب خطے کا پہلا دورہ تھا جسکا مقصد الہامی مذاہب کے مابین ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔ پاپائے اعظم نے دورہ یو اے ای کے موقع پر جنگ کی تباہ کاریوں سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہوئے عالمی امن کے فروغ کی افادیت پر زور دیا تھا۔اس موقع پرمتحدہ عرب امارات میں ایک شاندار انٹرفیتھ کمپاؤنڈ کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا تھا جہاںدین ابراہیمی کے پیروکاروںکیلئے مسجد، گرجا گھر اور سیناگاگ ساتھ ساتھ تعمیر کیے جائیں گے۔ میری نظر میں یو اے ای حکومت کا یہ اقدام نہایت قابلِ تعریف ہے کہ انہوں نے کسی ایک خاص دن کو نہیں بلکہ پورے سال کو برداشت و رواداری سے منسوب کردیا ہے اور آج دبئی میں منعقدہ ورلڈ ٹالرینس ڈے کی یہ شاندار تقریب اس عظیم پیغام کی عملی تصویر پیش کررہی ہے کہ خدا کی نظر میں سب انسان برابر ہے۔ خدا کو خوش کرنے کیلئے ہمیں ہر انسان کو اسکی مرضی سے جینے کا حق دینا ہوگا۔آج اگر ہم پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں متحدہ عرب امارات کی برداشت اور رواداری پر مبنی کامیاب اور امن پسند ریاستی پالیسیوں کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)