• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

قبائلی علاقوں میں تعمیر و ترقی کا عمل تاحال شروع نہ ہوسکا

جمعیت علمائے اسلام(ف) کا آزادی مارچ جو دھرنے میں تبدیل ہوچکا ہے ،اسلام آباد میں بدستور جاری ہے، اگرچہ دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے تمام تر یقین دہانیوں کے برعکس کارکنوں کی شرکت کے لحاظ سے کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا مگر اس کے باوجود جے یو آئی بھر پور طریقہ سے دھرنے جاری رکھے ہوئے ہے اگرچہ بارش اور شدید سردی کی وجہ سے دھرنے کے شرکا کو مشکلات کا بھی سامنا ہے خاص کر پہلی دن کی بارش نے ان کو کافی آزمائش سے دوچار کیا لیکن کارکن استقامت کیساتھ ڈٹے رہے، جے یو آئی نے فی الوقت دھرنے کے خاتمہ کے تمام امکانات مسترد کردئیے ہیں 

اور اس کیلئے وزیراعظم کے استعفیٰ کی شرط برقرار رکھی ہے، دھرنے کے تناظر میں اگر خیبر پختونخوا کےسیاسی ماحول کی بات کی جائے تو بلاشبہ یہاں کی اپوزیشن جماعتوں نے اس سے بھر پور سیاسی فوائد حاصل کئے ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ بعض اپوزیشن پارٹیوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے تو غلط نہ ہوگا، جے یو آئی اور اس کے بعد عوامی نیشنل پارٹی نے بھر پور پاور شو کا مظاہرہ کیا تھا اور دونوں پارٹیوں کے جلوس انتہا ئی متاثر کن حد تک بڑے تھے اس کےبعد مسلم لیگ ن ، قومی وطن پارٹی اور پیپلز پارٹی نے بھی قابل ذکر تعداد میں کارکنوں کو اسلام آباد پہنچا کر اپنی اپنی اہمیت واضح کردی تھی، یقیناً مستقبل میں یہ تمام جماعتیں اس سے بھرپور سیاسی فائد ہ اٹھاسکیں گی جس کیلئے شرط یہ ہے کہ جے یو آئی کی طرح دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی اپنے کارکنان کو مسلسل متحرک اور فعال رکھنے کی حکمت عملی اختیار کریں تاہم اپوزیشن میں شامل جماعت اسلامی نے حسب سابق اس مرتبہ بھی اپنی الگ پرواز کی روایت برقرار رکھی ہے ،گزشتہ سوا سال سے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ جماعت اسلامی آخر وکٹ کے کس طرف کھیل رہی ہے؟ بیک وقت جماعت اسلامی نہ صرف حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی باتیں کرتی ہے بلکہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی ملک کے تمام مسائل کی جڑ قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ کسی صورت نہ چلنے کی بات کرتی ہے، تمام اپوزیشن جماعتوں میں جماعت اسلامی ہی واحد جماعت رہی ہے جس نے آزادی مارچ اور دھرنے سے خود کو مکمل طور پر الگ تلگ رکھا ، جماعت اسلامی کی اس پالیسی کی وجہ سے اس کے اپنے کارکن بھی کنفیوژن کا شکار ہوتے جارہے ہیں، ویسے بھی اس وقت جماعت اسلامی پارلیمنٹ میں تاریخ کی کم ترین نمائندگی کی حامل ہے اور اگر اس کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو لگتا ہے کہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں اس کو مزید خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے، دوسری طرف جے یو آئی کے اسلام آباد دھرنے کی وجہ سے خیبر پختونخوا حکومت کے بہت سے معاملات بھی تعطل کا شکار چلے آرہے ہیں جس میں صوبائی کابینہ میں توسیع و تبدیلی سرفہرست ہے کیونکہ اس سے قبل کابینہ میں نہ صرف نئے چہروں کی شمولیت کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں بلکہ بعض اراکین کے محکموں کے قلمدان تبدیلی کیلئے بھی صلاح مشوروں کا عمل مکمل کرلیا گیا تھا مگر اس دوران جے یو آئی کی طرف سے آزادی مارچ کا اعلان کیا گیا جس کے بعد صوبائی حکومت نے مارچ کے اختتام تک کابینہ میں توسیع و تبدیلی کا مرحلہ ملتوی کیا ،شاید اس کا خیال تھا کہ جے یو آئی کا آزادی مارچ یکم یا دو نومبر تک ختم ہوجائیگا جس کے بعد کابینہ میں توسیع و تبدیلی کا مرحلہ مکمل کیا جائیگا مگر مولانا فضل الرحمان نے اچانک مارچ کو دھرنے میں تبدیل کرکے صوبائی حکومت کے کئی اقدامات کو بریک لگوادئیے ہیں، ظاہر ہے جب تک اپوزیشن کی جماعتیں اسلام آباد کی سڑکوں پر بیٹھی ہوئی ہیں تب تک بہت سے حکومتی معاملات کی طرح صوبائی کابینہ میں توسیع و تبدیلی کا عمل بھی لٹکا رہے گا، اگر اسی تناظر میں قبائلی اضلاع کی بات کی جائے تو حکومت نے اعلانات کے باوجود تاحال وہاں تعمیر و ترقی کے حوالے سے اس طرح کی ہلچل دکھائی نہیں دے رہی ہے جس کی توقع کی جارہی تھی کیونکہ پہلی مرتبہ قبائلی اضلاع صوبہ کی بجٹ کا حصہ بنے تھے اور اس سلسلہ میں ان کیلئے ریکارڈ رقم رکھی گئی تھی مگر رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی کا نصف مکمل ہونے کے باوجود تاحال وہاں زمین پر کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا جس بعد ہر گزرتے دن کیساتھ قبائلی عوام کی مایوسیاںبڑھتی جارہی ہیں اور اگر صورتحال اسی طرح رہی تو فاٹا انضمام کے ثمرات ضائع ہونے کا خدشہ بھی برقرار رہے گا جو یقیناً وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بہت بڑی ناکامی اور قبائلی اضلاع کے عوام کی بہت بڑی بدقسمتی ہوگی، ادھر پیپلز پارٹی سے راہیں الگ کرکے سینیٹ کی رکنیت سے مستعفی ہونے والے خانزادہ خان کے صاحبزادے کو اپنے والد ہی کی جگہ سینیٹ کا امیدوار نامزد کرکے تحریک انصاف نے نہ صرف اپنے دعوؤں کے برعکس موروثی سیاست کو بھر پور طریقہ سے زندہ رکھا بلکہ اپنے کارکنوں کو بھی حد درجہ مایوس کیا جس کا اظہار پارٹی کے دیرینہ کارکنان سوشل میڈیا کے ذریعے مسلسل کررہے ہیں ، حیرت کی بات ہے کہ محض ایک ہفتہ قبل تحریک انصاف میں شامل ہونے والے ایک سرمایہ دار سیاسی خاندان کے فرزند کو پارٹی ٹکٹ دے کر پی ٹی آئی نے دیگر سیاسی جماعتوں کی روایت کو ہی بھر قرار رکھا ہے، سالوں سے پارٹی کےلئے قربانیاں دینے والے کارکنوں اور رہنماؤں کو نظر انداز کرنے کے بعد کم از کم سیاسی معاملات میں تحریک انصاف کو تبدیلی کے دعوؤں سے گریز ہی کرنا چاہیے اگر یہ طرز عمل اسی طرح جاری رہا تو آنے والے بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کو بڑا سیٹ بیک مل سکتا ہے کیونکہ ابھی تک پارٹی کی طرف سے کارکنوں کے مسائل کے حل کےلئے کوئی حکمت عملی بھی سامنے نہیں آسکی ہے، جہاں تک خیبر پختونخوا سے سینیٹ کی خالی نشست پر ضمنی انتخاب کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں پولنگ 26نومبر کو ہوگی جس کے دوران تحریک انصاف کے امیدوار ذیشان خانزادہ اور اے این پی کے سابق صوبائی وزیر حاجی ہدایت اللہ کے مابین مقابلہ ہوگا ،اگرچہ صوبہ کی حکمران جماعت تحریک انصاف صوبائی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت حاصل ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے امیدوار کے باآسانی منتخب ہونے کے امکانات ہیں تاہم دوسری جانب اے این پی نے بھی اپنے امیدوار کی حمایت کے حصول کےلئے اپوزیشن جماعتوں کیساتھ رابطوں کا فیصلہ کیا ہے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین