• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی زیر صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں گندم کی امدادی قیمت میں 50روپے فی من اضافے کی منظوری دے کر یہ قیمت 1350روپے فی من مقرر کر دی گئی ہے، فیصلہ عالمی منڈی میں گندم کی قیمت کے تناظر میں بتایا جاتا ہے۔ کمیٹی کے مطابق امدادی قیمت میں اضافہ کاشتکاروں کی مشکلات دور کرے گا۔ وطنِ عزیز میں گندم کی روٹی خوراک کا جزو لاینفک ہے چنانچہ ملک بھر میں اور بالخصوص پنجاب میں گندم کی کاشت مرکزی حیثیت کی حامل ہے اور پنجاب کی مزروعہ زمین کے آدھے سے کچھ زیادہ حصہ پر ہر سال تقریباً بیس ملین ٹن گندم پیدا کی جاتی ہے۔ کسان کچھ گندم اپنے ذاتی استعمال کے لئے محفوظ کر لیتا ہے اور باقی ماندہ حکومت خرید کر گوداموں میں ذخیرہ کر لیتی ہے تاکہ اسے ضرورت مندوں کیلئے مارکیٹ میں بھیجا جائے اورگندم کی قیمت بھی معمول پر رکھی جائے۔ نجانے کہاں نقص پیدا ہوا کہ یہ نظام متاثر ہو گیا جس سے کسان اور حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بجلی، پٹرولیم مصنوعات اور کھاد کی قیمتوں میں اضافے کے باعث کاشتکار کی پیداواری لاگت بڑھ گئی چنانچہ کسان کو ریلیف دینا ضروری ہو گیا۔ یہ ریلیف حکومت نے فی من گندم پر 50روپے اضافے کی صورت میں دیا ہے، جو احسن عمل ہے۔ دوسری جانب عوام کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ کسی بھی شے کی قیمت بڑھنے کے اثرات لامحالہ انہی پر ہی مرتب ہوتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ کسی شے کی قیمت میں 5فیصد اضافہ ہو تو تاجر اسے 10فیصد کر دیتے ہیں۔ نانبائی تو پہلے ہی روٹی کی قیمت بڑھا رہے ہیں، فلور ملز والوں کے اپنے بکھیڑے ہیں۔ حکومت ایسی جامع حکمت ِعملی وضع کرے کہ سب کو ریلیف ملے لیکن عوام پر کسی قسم کا بوجھ نہ پڑے جو مہنگائی کے ہاتھوں پہلے ہی خمیدہ کمر ہیں، انہیں روٹی کے حصول میں کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آنی چاہئے۔

تازہ ترین