• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے حضرتِ غالبؔ کے ایک مصرع میں فقط ایک لفظ کا تصرف کرتے ہوئے اپنے کالم کا عنوان باندھا ہے۔ اُن کا مصرع ہے ’ہے خبر گرم اُن کے آنے کی‘۔ چند مہینوں اور ہفتوں سے ہمارے ملک اور ہمارے پڑوس میں پے در پے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جو دوررس نتائج کے حامل ہو سکتے ہیں۔

ان سے گاہے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ کسی کہ جان پر بنی ہوئی ہے اور کہیں سیاسی اٹھکیلیاں کی جا رہی ہیں۔ علم و دانش سے مالامال تجزیہ کاروں کی رائے میں پاکستان کی اُبھرتی ہوئی سیاسی صورتحال اُردو کے دو عظیم شعرا کے دیوانوں کے پہلے شعر کی طرح انتہائی گنجلک بھی ہے اور بہت سادہ بھی۔ دیوانِ غالبؔ کا پہلا شعر ہے

؎ نقشِ فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا

     کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

اِس شعر کی بڑے بڑے نکتہ دانوں نے لاتعداد شرح لکھی ہیں لیکن پھر بھی مدعا عنقا ہے۔ کچھ یہی معاملہ ہمارے سیاسی رہنماؤں اور قومی اداروں کا ہے کہ اُن کے بیانات اور اقدامات سے سیدھے سادے معاملات اُلجھتے اور بحران پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔

کبھی کبھی یہ گمان گزرنے لگتا ہے کہ ہمارے رہبر اَور محافظ ہی سب سے بڑے رہزن ہیں۔ قوم پر شدید کرب کی جو کیفیت آج طاری ہے، اِس کا سبب ایک اور عظیم شاعر اور رئیس المتغزلین جناب حسرتؔ موہانی نے بڑے لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے ؎

حُسنِ بے پروا کو خودبین و خودآرا کر دیا

کیا کیا میں نے کہ اظہارِ تمنا کر دیا

اِس شعر کے مطابق غلط وقت یا غلط مقام پر بےمحابا اظہارِ تمنا مسائل کو پیچیدہ بنا دیتا اور طرح طرح کی اناؤں کے عفریت تیار کرتا رہتا ہے۔ پاکستان اِس وقت اَن گنت چیلنجز میں گھرا ہوا ہے اَور اپنی بقا اور سلامتی کی جنگ لڑ رہا ہے مگر ایسا لگ رہا ہے کہ اختیارات کے سنگھاسن پر براجمان لوگ زمینی حقائق سے آنکھیں بند کیے رکھنے اور عوام کے حقیقی جذبات سے یکسر نابلد ہونے کے باعث ایسے فیصلوں پر اصرار کر رہے ہیں جو ملکی وحدت اور انسانی عظمت کو ضعف پہنچا رہے ہیں۔

ذہن کو چکرا دینے والے حالیہ واقعات پورے منظر نامے پر چھاتے جا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں نیب نے سابق وزیرِاعظم جناب نواز شریف کے ساتھ ایک ایسا رویہ اپنایا جو ہر اعتبار سے ناانصافی اور بےرحمی پر مبنی تھا۔ وہ ایک مقدمے کی سزا کاٹ رہے تھے اور شدید علالت کے باوجود جیل میں بند تھے۔

نیب کے کارندے ایک اور مقدمے میں تفتیش کے نام پر اُنہیں جیل سے نکال کر لاہور میں اپنے ہیڈکوارٹر لے آئے اور اُنہیں صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم کر دیا۔ چند ہفتوں ہی میں اُن کی صحت اِس قدر بگڑ گئی کہ اُنہیں ڈاکٹروں کی سفارش پر سرکاری اسپتال منتقل کرنا پڑا۔

وزیرِاعظم عمران خان نے اُن کی بیماری کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے شوکت خانم اسپتال کے چیف ایگزیکٹو کو اُن کی طرف بھیجا اور جب اِس امر کی تحقیق ہو گئی کہ میاں صاحب کی بیماری انتہائی خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے، تو جناب عمران خان نے بہت صحیح بیان دیا کہ صحت پر سیاست نہیں کی جانی چاہئے اور اپنے ترجمانوں کو اِس امر کی ہدایت کی کہ میاں صاحب کی صحت کے بارے میں بیان بازی سے اجتناب کیا جائے۔

حکومت نے اعلیٰ عدالتوں سے میاں صاحب کی ضمانت دلوانے میں تعاون بھی کیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے سزا معطل کرتے ہوئے آٹھ ہفتوں کی ضمانت پر رہا کر دیا اور باہر جا کر علاج کرانے کی اجازت بھی دے دی۔

برطانیہ کی صحت مند سیاسی فضا میں تربیت پانے والے گورنر پنجاب جناب چوہدری محمد سرور نے مژدہ سنایا کہ ایک روز میں جناب نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا جائے گا۔ وفاقی وزیر محترمہ زبیدہ جلال نے بھی یہی تاثر دیا کہ وفاقی کابینہ میں فیصلہ ہو چکا ہے، مگر بعد ازاں معلوم ہوا کہ سابق وزیراعظم کو چار ہفتوں کے لیے باہر جانے کی اجازت دینے کے لیے کڑی شرائط عائد کی جا رہی ہیں۔

اِس پر مسلم لیگ (قاف) کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے بےحد مدبرانہ بیان دیا کہ جو لوگ مینگنیاں ڈال رہے ہیں، وہ حکومت اور عمران خان سے دشمنی کر رہے ہیں اور تحریکِ انصاف پر کلنک کا ٹیکہ لگانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ حکومت کے اِس بےرحم اور سفاک طرزِعمل کی موجودگی میں جناب نواز شریف کا باہر جانا بظاہر محال نظر آتا ہے، کیونکہ جناب نواز شریف غیرقانونی اور ذلت آمیز شرائط قبول نہیں کریں گے، البتہ پاکستان کے چیف جسٹس اِس غیرمعمولی صورتحال کا ازخود نوٹس لے سکتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے ’آزادی مارچ‘ کا پہلا مرحلہ ختم کرتے ہوئے اِسے پورے ملک میں پھیلانے کا اعلان کر دیا ہے جسے ’پلان بی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں مولانا نے بعض بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اُنہوں نے قومی سیاست میں مرکزی مقام حاصل کر لیا ہے اور اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو دو بڑے مطالبات پر متفق کر لیا ہے۔ جمہوری قوتوں میں ایک نیا جوش و خروش پیدا ہوا ہے۔

میڈیا نے کسی قدر آزادی کا سانس لیا ہے۔ قومی اداروں تک یہ پیغام پہنچ گیا ہے کہ قوم کے جذبات کیا ہیں اور وہ شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لیے کس قدر مضطرب ہے۔ عوام و خواص نے دیکھ لیا ہے کہ اِس حکومت کے مشیرِ خزانہ جناب ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ عوام کی بدحالی سے کس قدر بےخبر ہیں، جب اُنہوں نے بڑے فخر سے کہا کہ ٹماٹر سترہ روپے کلو فروخت ہو رہے ہیں۔

حکومت کو حالات کے بگاڑ پر قابو پانے کے لیے اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت کی راہ نکالنا ہو گی، ورنہ قدم قدم پر تنازعات اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اربابِ اختیار کے جانے کے اسباب پیدا ہوتے جائیں گے۔ بدقسمتی سے بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے خلاف فیصلہ دے کر پوری اُمتِ مسلمہ کے لیے ایک سنگین چیلنج کھڑا کر دیا ہے ۔

تازہ ترین