• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے آقا و مولیٰ کا فرمان ہے کہ قبرستان جایا کرو تاکہ موت یاد رہے۔ اگلے روز اسلام آباد کے نئے قبرستان گیا، قبرستان کیا ہے، پورا شہر آباد ہے، پلاٹ نمبر اور قبر نمبر کے ساتھ۔ ایک سے ایک بڑھ کر پتھر کی تراشی لاکھوں کی مالیت کی شاندار قبریں۔ جن کے مکین وزیر بھی ہیں اور بیوروکریٹس بھی، جرنیل بھی ہیں اور اہل دانش بھی، کم وسائل والے بھی اور اربوں کھربوں کی مالیت کی فیکٹریوں ، ملوں ، جاگیروں اور بزنس امپائرز کے مالک بھی۔ جن کے طرز حیات اور جاہ و جلال کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہاں بے بسی کا یہ عالم ہے کہ حالیہ بارشوں نے ان کے محلات کا تو کچھ نہیں بگاڑا، مگر بہت سی قبروں کے منہ کھل گئے ۔ ان پر دھرے سلیب ٹوٹ گئے اور اندر ایسا ایسا سامان عبرت کہ الامان الحفیظ ۔ ایک بات اور کہ یہاں سب کا ایک ہی پلاٹ ہے۔ دو کسی نے الاٹ نہیں کرائے۔ دو پلاٹوں کیلئے ہلکان ہونیوالے 22گریڈرز، چھ چھ رہائشی اور کمرشل پلاٹوں کے مالک جرنیل ، جھنڈوں، بنگلوں اور گاڑیوں پر جھگڑنے والے وزیر، پاکستان کے ہر بڑے شہر میں اربوں ، کھربوں کی پراپرٹی کے مالک نو دو لتیے۔ غرض کہ ہر کوئی بقول بہادرشاہ ظفر دو گز زمین پر اکتفا کئے ہوئے ہے۔
مقام حیرت ہے کہ دنیا کی حقیقت معلوم ہونے کے باوجود ہماری نیت کیوں نہیں بھرتی؟ ہم بخیل ہو کر بھی نیکوں اور پرہیزگاروں میں شمار چاہتے ہیں۔ جبکہ قرآن کہتا ہے۔ ”اور تم کیا نیکوکاری اور پرہیزگاری کروگے، تمہاری طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہیں (سورة النساء آیت۔ 128) ہوس نے ہمیں اندھا کیوں کر رکھا ہے؟ ایک سے دو ، دو سے چار ، چار سے آٹھ، علی ہذا القیاس ، ہم کہیں بھی بریک کیوں نہیں لگاتے؟ حالانکہ قرآن کہتا ہے کہ جو شخص نفس کی حرص سے بچ گیا، وہ مراد پا گیا (سورة الحشر آیت۔9) تو پھر ہم نامراد کیوں رہنا چاہتے ہیں؟ ہمیں صرف اپنی ہی ذات نظر کیوں آتی ہے؟ ہمارے رہنماؤں کو ہدایت کب نصیب ہوگی ؟ قوم کو مبارک ہو کہ پیپلز پارٹی کے 24 سالہ چیئرمین کو بلاول ہاؤس سے معنون تیسرے محل کی چابی مل چکی جو 126کنال پر تعمیر ہوا ہے جس کی لاگت کا اندازہ پانچ ارب روپے ہے۔ جس میں ہیلی پیڈ بھی ہے اور چھوٹے جہازوں کیلئے اسٹرپ بھی۔ باؤنڈری وال ڈھائی فٹ موٹی اور بم پروف ہے۔ اس میں بنکر بھی ہیں اور تہہ خانے بھی اور دس ہزار جیالوں کے اجتماع کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ یاد رہے کہ ایسے ہی دو بلاول ہاؤس اور بھی ہیں ایک کراچی میں اور ایک دبئی میں واقع ہے۔

زرداریوں کے بعد شریفوں کے محلات کا ذکر نہ کیا جائے تو ناانصافی ہوگی۔ مگر مشکل یہ ہے کہ باہر کے اثاثے تو رہے ایک طرف ، قوم کو تو ان کی اندرون ملک پراپرٹیوں کی بھی سن گن نہیں۔ یہ سربستہ راز ہیں جو باہر نہیں نکلا کرتے۔ سو ہر کسی کا اپنا اپنا اندازہ ہے۔ صرف رائے ونڈ فارم اور اس پر کی گئی تعمیرات کا رقبہ کوئی اسے فیصل ٹاؤن ، جوہر ٹاؤن اور اقبال ٹاؤن سے بھی وسیع تر بتاتا ہے۔ کسی کا اندازہ ہے کہ گیارہ بلین کی خطیر رقم ان محلات تک سڑکوں کی تعمیر کیلئے خرچ کردی گئی۔ کسی کا دعویٰ ہے کہ زمین کوڑیوں کے مول لی گئی ۔ یہ سب زبان خلق ہے اور انٹرنیٹ پر میسر ہے۔ انہی محلات میں سے ایک کا مکین، اس خاندان کا سب سے درویش طبع شخص میاں محمد عباس شریف جنوری کی ایک منجمد شام میں اس قدر خاموشی کے ساتھ اللہ کو پیارا ہوگیا کہ میڈیا قیاس آرائیاں ہی کرتا رہا کہ یہ سانحہ کیسے ہوا، وجہ کچھ بھی ہو۔ حقیقت یہی ہے کہ موت سے مفر نہیں، سب پر آتی ہے اور ہر جگہ آتی ہے۔ پاکستانی سیاست کا جینئس اور اچھوتا کردار ذوالفقار علی بھٹو، شیروں جیسے بیٹے مرتضیٰ اور شاہنواز، پاکستانی سیاست کی آبرو بے نظیر اور ان کی بدنصیب ماں محترمہ نصرت بھٹو شہیدوں کا یہ بھرا بھرایا کنبہ کبھی المرتضیٰ کا مکین ہوتا تھا اور کبھی 70 کلفٹن ان کے قہقہوں سے گونجتا تھا۔ کسی دانشمند نے کیا خوب کہا تھا کہ یہ محلات ہیں، سرائے ہیں، ایک آتا ہے، ایک جاتا ہے۔ میاں صاحبان کے ماڈل ٹاؤن میں اچھے بھلے رہائشی مکانات تھے۔ فارم ہاؤس کے شوق میں رائے ونڈ اٹھ آئے تو ملک بھر میں فارم ہاؤسز کا گویا فلڈ گیٹ کھل گیا۔ فارم ہاؤس اسٹیٹس سمبل قرار پایا، اور آج عالم یہ ہے کہ ہرکس و ناکس فارم ہاؤس کا مالک ہے۔ حتیٰ کہ سرکاری لیز کی زمین کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اسلام آباد میں سستے داموں سبزیوں، پھلوں اور پولٹری کی فراہمی کیلئے سرکار نے ایکڑوں کے حساب سے زمین الاٹ کی تھی، جن پر فارم ہاؤسز کے نام پر شاندار محلات تعمیر ہوچکے ہیں، جو سی ڈی اے کی نظروں کے عین سامنے بلکہ اس کی اعانت سے ہوا اور اب سپریم کورٹ کے خوف سے گاہے گاہے تنبیہی اعلانات کرتی رہتی ہے، سب کو پتہ ہے کہ بس چند مہینوں کی بات ہے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریٹائر ہوجانا ہے، پھر کس میں دم ہوگا کہ بھاری بھرکم مالکان کی طرف انگلی اٹھائے۔ مگر یاد رہے زمین اللہ کی ہے اور اللہ سب کا ہے۔ جھگی نشینوں کا بھی، مرلہ آدھ مرلہ کی کھولیوں کے باسیوں کا بھی اور محلات کے مکینوں کا بھی۔ یہ سب اللہ کی مخلوق ہے اور اسے یکساں عزیز ہے۔ غریب کا جو بنتا ہے، اسے خود ہی دے دو، اللہ کو انصاف پر مجبور نہ کرو۔ وہ ہوگیا تو پچھتاؤ گے، یہاں مجھے بنگلہ دیش کے نوبل انعام یافتہ، ماہر اقتصادیات ڈاکٹر یونس کا قول یاد آرہا ہے کہ چھت سب کی ضرورت ہے۔ سو ایک مکان ضرور بناؤ، مگر اس سے زیادہ کرنے والا مجرم ہے۔ آخر میں قرآن حکیم کی ایک وارننگ کہ ”قیامت کے دن رشتے ناتے کام آئیں گے اور نہ اولاد“ ۔ (سورة الممتحنہ، آیت۔ (3 جسے میاں محمد بخش نے اپنے اس لافانی شعر میں یوں سمویا ہے۔
جنہاں دی خاطر پاپ کماویں کتھے نیں تیرے گھر دے
پیر پسار پیا ایں وچ ویہڑے ، کڈھو کڈھو پئے نہ
یعنی اپنی جس آل اولاد کیلئے تم مار دھاڑ کرتے رہے اور زندگی گناہوں سے آلودہ کئے رکھی، آج وہ کہاں ہیں؟ صحن میں تمہاری میت دھری ہے اور سب اس کوشش میں ہیں کہ اسے جلد از جلد نکال باہر کیا جائے۔ من حیث القوم ہماری بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ راعی اور رعیت میں کچھ بھی سانجھ نہیں رہی۔ ورنہ حضرت خالد بن ولید نے جب اپنے لئے بہتر اسباب حرب از قسم اسپ و تیغ و تفنگ کا اہتمام کرنا چاہا تو لشکری ڈٹ گئے تھے، کہ ہمارے لئے اور، اور اپنے لئے کچھ اور سوچنے والا ہمارا سالار نہیں ہوسکتا۔
تازہ ترین