• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: ایم اسلم چغتائی۔۔۔ لندن
جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔ آئے دن پاکستان کی بقاء اور پاکستان کی سلامتی جیسی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شروع سے ہی ملک غیر متوقع مختلف بحرانوں سے دوچار ہوتا آیا ہے۔ ایک بحران ختم ہوتا ہے تو دوسرا بحران سامنے آجاتا ہے۔ اپنی تاریخ کا سب سے بڑا بحران اور اپنے ایک بازو یعنی مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کا قیام تھا۔ آج بھی پاکستان سنگین معاشی وسیاسی بحرانوں کا شکار ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آج ایک غیرمنتخب شخص مولانا فضل الرحمان جے یو آئی کے رہنما راتوں رات اپوزیشن کے رہنما کے طور پر منظر عام پر آگئے اور آزادی کے نام پر مارچ کی قیادت کرتے ہوئے کراچی سے اسلام آباد پہنچ کر ہزاروں کی تعداد میں اپنے پیروکاروں کے ساتھ دو ہفتوں تک دھرنا دیئے رکھا وہ روز خطابات کر رہے ہیں اورحکومت کو للکار رہے ہیں منتخب وزیراعظم سے استعفے مانگ رہے ہیں اور نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سوچنے کا مقام ہےکہ کیا آج ملک کسی نئے بحران کا متحمل ہو سکتا ہے یا ڈیڑھ سال کے اندر نئے انتخابات کا مطالبہ جائز ہے ؟۔ آج ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتیں بھی مولانا کے پیچھے پیچھے چل رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی اپنی سیاست اپنا منشور اپنی جمہوریت کہاں ہیں کہ آپ مولانا فضل الرحمٰن کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلا رہے ہیں۔ یہاں تک ملکی حالات پہنچانے میں کچھ نااہل، نا تجربہ کار حکومتی وزراء اور حکمران بھی شامل ہیں جو صرف تصادم کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں اور غیر ذمہ دارانہ بیانات دیتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے جے یو آئی کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں کو مقبولیت حاصل ہوئی ہے اس دھرنے کی وجہ سے آج پھر ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔اپوزیشن کا کوئی واضح نظریہ یا منشور نہیں ہے یہ صرف عمران خان کا استعفےٰ چاہتے ہیں حالانکہ انہیں علم ہے کہ ملک کے معاشی سیاسی معاشرتی حالات اسی ڈیڑھ سالہ حکومت کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ کئی دہائیوں کی معاشی وسیاسی حکومتوں ان کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ معاشی بحران راتوں رات یا سال ڈیڑھ سال کے اندر پیدا نہیں ہوا ان حالات کی ساری ذمہ داری ایک حکمران یا ایک جماعت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ عمران خان کی نیت اچھی اور صاف ہے۔ وہ ملک وقوم کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر اس کے لئے قابل ، ذمہ دار مخلص ٹیم کی بھی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کی قیادت اپنی غلطیوں سے سیکھے گی اور یہ اس جماعت کی حکومت پانچ سال پورے کرے گی عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات عام ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کسی بیرونی یا کسی دوسرے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ کشمیر کمیٹی کے سربراہ کے طور پر مولانا کی کارکردگی سامنے ہے کہ انہوں نے کشمیر کیلئے کیا کیا ہے۔ اپنے دھرنے کے دوران ایک تقریر میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے جو قرضے لئے تھے وہ صحیح طور پر منصوبوں پر خرچ کئے گئے ہیں اور وہ یہ بھی فرما رہے تھے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی پچھلی حکومتوں کے دوران کوئی منی لانڈرنگ نہیں ہوئی اور ہنڈی کے ذریعے پیسہ باہر نہیں گیااگر مولانا کی بات مان لی جائے تو ملک کے حالات ایسے کبھی نہ ہوتے ملک کے حالات آج پچھلی حکومتوں کی کرپشن بے تحاشا قرضوں اور ناقص معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔موجودہ حالات کے پیش نظر تمام محب وطن سیاستدانوں اور حکمرانوں پر یہ ذمہ دار عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک وقوم کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے مخالفت برائے مخالفت کی سیاست ختم کریں اور حکومت اور اپوزیشن مل کر ملک کو اندرونی وبیرون بحرانوں سے نجات دلائیں اگر ملک سلامت ہے تو ہم سب ہیں۔
تازہ ترین