چہرے پڑھے جاتے ہیں، تصویریں بولنے لگتی ہیں، الفاظ کا اُتار چڑھائو، آنکھوں کی جنبش معنی رکھتی ہے۔ اندازِ گفتگو، طرزِ خطابت کے دوران چہرے کی سُرخ، پیلی، نیلی رنگت دل کی کہانی بیان کرتی ہے۔ محفل کے آداب، بیٹھنے کے انداز، موقع محل کی مناسبت سے لباس کا انتخاب، شخصیت کا آئینہ، سنجیدگی،کھلنڈرے پن کا اظہار بنتا ہے۔ بروقت فیصلے سنہری تاریخ کا حصہ بنتے ہیں تو دنیا آپ کی ذہانت کی معترف ہوتی ہے۔ جنگ کے بعد کا تھپڑ ہمیشہ اپنے ہی منہ پر مارا جاتا ہے جسے لکیر پیٹنا بھی کہتے ہیں۔ زندہ قوموں کے دلیر رہنما اور قومی ہیروز انہی اصولوں پر رول ماڈل یا روڈ رولر بنتے ہیں کہ ان کی پیروی دانش مندی و رہنمائی میں قومیں متحد یا برباد ہوتی ہیں۔ کامیاب رہنمائوں کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ مشکل سے مشکل تر حالات میں بھی اپنے چہرے کے تاثرات سے دلوں کے راز ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ ناکام لوگوں کی ہمیشہ سے مشکل یہ رہی ہے کہ وہ بند کمروں کی تلخیوں کو کھلے میدانوں میں بھی اپنے اندازِ خطابت، غصیلے چہرے،انگار جیسی آنکھوں سے اپنا کھوکھلا پن ظاہر کر دیتے ہیں۔ پھر خاموش تصویریں بھی بولنے لگتی ہیں۔ ایسی حالت میں آپ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے بجائے جھکی نظروں سے بُڑبُڑ کرنے لگتے ہیں اور ہاتھوں کی گرفت کمزور سے کمزورتر ہونے لگتی ہے۔ زورِ خطابت آپے سے باہر ہو جاتا ہے ایسی شخصیات سنجیدہ سے سنجیدہ ماحول میں بھی غیر سنجیدگی کا ایسا مظاہرہ کر جاتی ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور عجب بے نیازی سے تجربہ کار دشمن پر اوندھے منہ گرے ہونے کے باوجود کپڑے جھاڑ کر دیوانہ وار پھر جھپٹ پڑتے ہیں۔ جیسے رضیہ غنڈوں میں گھر جائے اور اپنے بچائو کی خاطر ہاتھ پائوں مارنے لگے۔ مخالف کی گرفت اور تجربہ کاری کا اندازہ کیے بغیر ہوا میں تیر محض اسی لئے چلائے جاتے ہیں کہ لگ گیا تو پائوں بارہ نہ لگا تو دنیا یہ مانے کہ شیر جوان لڑ کر مرا لیکن دنیا خالی ہاتھ ڈھنڈورا پیٹنے والے کو ہمیشہ ڈھنڈورچی ہی کہتی ہے دانش مند نہیں۔ تاریخ میں کامیاب اور بہادر وہی کہلایا ہے جو ذہین ہو، منصوبہ ساز ہو، بروقت فیصلے کی قوت رکھتا ہو اور اس میں برداشت ہو، اسی لئے کہتے ہیں کہ گرجنے والے برستے نہیں اور برسنے والے کبھی گرجتے نہیں۔ اس محاورتی سائنس کو سمجھنے کیلئے کسی آئن سٹائن، ارسطو، افلاطون، شریف، زرداری کی ضرورت نہیں بس کپتان خان بمقابلہ بڑے مولانا دنگل بتاریخ 31 اکتوبر سے تا حال لطف اٹھائیے، دونوں پہلوانوں کے چہروں کی رنگت، خاموش بولتی تصویروں، منہ سے نکلے الفاظ، ہاتھوں، آنکھوں کی جنبش اور ان کے تاثرات محفل کے آداب، پس منظر میں پہلوانوں کے اعتماد، حوصلے، تدبر اور اسلام آباد کے دو بڑے ایوانوں میں ہونے والی اہم ترین بیٹھکوں پر نظر رکھئے، ٹریک سوٹ پہنے ایک انوکی پہلوان تو دوسرا دیسی لنگوٹ کسے جھارا پہلوان ہے۔ ایک کو اپنی جدید تکنیک اور طاقت پر بھروسہ تو دوسرا سادگی، تہذیب و شائستگی کے دائرے میں اپنے تجربے کی بنیاد پر دھوبی پٹکے پر پٹکالگائے جارہا ہے۔ دیکھتے جائیے تیر اندازی کے ماہر نشانہ باز بڑے مولانا کس کس کو کہاں کہاں سے گھائل کرتے ہیں؟ ابھی تو صرف چوہدری برادران ہی ٹھیک نشانے پر بیٹھے ہیں، بڑے مولانا کا مخالف پہلوان بلاتکلیف مررہا ہے اور خون بھی نہیں بہہ رہا، یعنی ایسی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے کہ ایسا دھوبی پٹکا مارتے ہیں، ہنسنے دیتے ہیں نہ رونے اور درد بھی چوکھا ہو۔ تاریخ کے طویل ترین دھرنے اور مختصر ترین دھرنے کا فرق صاف ظاہر ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ تاریخ میں دھرنے کبھی استعفوں پر ختم نہیں ہوتے مگر ان کے بداثرات ہمیشہ چند ہفتوں بعد ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ چینی دوست اسی لئے ابھی تک کپتان خان سے ہاتھ ملاتے ہوئے ذرا فاصلے پر کھڑے ہوتے ہیں اور مولانا کے دھرنے پر ننکانہ شاہ کو یہی کہتے پائے جاتے ہیں کہ آپ نے تو کمال کر دیا۔ آپ کے تدبر اور سیاسی بصیرت سے ہی یہ دھرنا پُرامن طور پر اپنے انجام کو پہنچا، چینی دوست ساتھ ہی یہ یقین بھی دلاتے ہیں کہ ہم پاکستان کے سیاسی نظام کے ساتھ کھڑے ہیں یعنی کوئی بھی ہو پاک چین دوستی زندہ باد لیکن ساتھ ہی وہ گجرات کے اصلی تے نسلی چوہدریوں کی سیاسی چوہدراہٹ کے بھی معترف ہیں۔ اب انسان کس کی مانے کہ یہ دھرنا ننکانہ شاہ کے کرشمے سے ختم ہوا یا گجرات کے چوہدری پورے کا پورا دھرنا ہی لے اڑے۔ چیئرمین نیب کے بقول ہوائوں کا رخ بدل رہا ہے، تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرانے جارہی ہے، 28 نومبر اور 5 دسمبر کی تاریخیں ذہن نشین کرلیجئے کپتان خان کے تادم تحریر آخری عوامی خطاب کے بعد سے چہرے لٹکے ہوئے ہیں، اُچھل کود بند ہے، تبدیلیاںہو رہی ہیں، پنڈی بوائے سمیت کچھ قریبی ساتھی بیمار پڑے ہیں، اللہ انہیں صحت عطا فرمائے! اتحادی چالیں بدل بدل کر سامنے آرہے ہیں، حکومتی دفاعی لائن تتر بتر ہے۔ اپنی تاریخ کی کتاب کے صفحے پر صفحہ پلٹئے کوئی صفحہ دوسرے صفحے سے نہیں ملتا۔ اس کتاب کی ترتیب ہی ایسی ہے۔ ماضی میں جانے اور آنے والوں کی ایک ہی کہانی ہے۔ علم نجوم کے مطابق منگل وارکو ایک اہم ترین ملاقات میں ہماری پیلی تاریخ کی کتاب کے اوراق نظریں نیچی کرکے اُلٹے پلٹے جارہے تھے۔ جس پر صاف لکھا تھا چپ کر جا۔ دروٹ جا۔ اسپغول تے کجھ نہ پھرول۔