اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے وزیراعظم عمران خان کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم طاقتوروں کا طعنہ ہمیں نہ دیں، ہمارے سامنے کوئی طاقتور نہیں، جن کو باہر بھیجا گیا ان کو آپ نے اجازت دی، ہائیکورٹ میں صرف طریقہ کار پر بحث ہوئی، ہمارے سامنے کوئی طاقتور نہیں سب برابر ہیں۔
ایک وزیر اعظم کو نا اہل دوسرے کو سزا ہم نے دی، سابق آرمی چیف کا جلد فیصلہ آنے والا ہے، وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہیں اور ہمارے منتخب نمائندے ہیں، وزیراعظم اپنے بیان پر غور اور احتیاط کریں، ججز کام کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں، اپنے وسائل سے کام کررہے ہیں کبھی سرکار سے ایک آنہ نہیں مانگا، دو تین کے سوا 36 لاکھ ناتوا ںلوگوں کو انصاف دیا جن کو وزیراعظم جانتے بھی نہیں ہونگے۔
وزیر اعظم کا وسائل فراہم کرنےکا اعلان خوش آئند ہے، ہمارا موازنہ 2009 کی عدلیہ سے نہ کیا جائے اسکے بعد عدلیہ مختلف اور آزاد ہے، ایک خاموش طوفان آچکا ہے،اگر کوئی شخص میڈیا کی مہربانی سے طافتور بن گیا تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ ان لاکھوں افراد کو بھول جائیں جنہیں عدلیہ سے انصاف ملا، پولیس ریفارمز کی وجہ ایک لاکھ مقدمات عدالتوں میں نہیں آئے، عدلیہ نے ماڈل کورٹس بنانے کا قدم اٹھایا مگر ہم نے کوئی ڈھنڈورا پیٹا نہ اشتہار لگایا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو سپریم کورٹ کی موبائیل ایپ اور ریسرچ سنٹر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدلیہ کو ٹیکنالوجی کے زریعے کے جدید خطوط پر استوار کرنا ہے، آج پاکستان کی عدالتوں میں بھی تمام چیزیں استعمال ہو رہی جو دنیا کی عدالتوں میں ہوتی ہیں، جو سہولیات نہیں ان کیلئے کوشاں ہیں۔
انہوں نے کہاکہ کال سینٹر کے زریعے معلومات تک رسائی آسان بنائی گئی ہے، لوگ گھر بیٹھے اپنے مقدمات سے متعلق معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سائلین کال سینٹر سے اپنے مقدمہ سے متعلق ہر قسم کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اطلاعات تک رسائی کیلئے پہلے سے موجود ویب سائٹ کو بھی بہتر کیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ٹیکنالوجی کے میدان میں اٹھائے گئے یہ تین اقدامات لوگوں کو لمبے عرصے تک سہولت دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ریسرچ سینٹر کا قیام بھی عمل میں لایا ہے، کسی بھی عدالت کا جج ریسرچ سینٹر تک رسائی حاصل کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ سائلین اور وکلاء کی سہولت کے ویڈیو لنک کا نظام متعارف کرایا گیا، چاروں رجسٹریوں کو ویڈیو لنک کے زریعے پرنسپل سیٹ سے منسلک کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اب سپریم کورٹ میں پانچ کورٹس ویڈیو لنک کے زریعے دوسری رجسٹریوں سے منسلک ہیں، پشاور، کوئٹہ، کراچی اور لاہور رجسٹری سے وکلاء ویڈیو لنک کے زریعے دلائل دے سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ ویڈیو لنک کے نظام سے وکلاء کو وقت کی بچت کے ساتھ انکے اخراجات میں بھی کمی ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ سائلین جو دوسرے صوبوں سے خرچہ کر کے اسلام آباد آتے تھے انکے پیسے بھی کم خرچ ہونگے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ وزیر اعظم نے دو دن پہلے خوش آئند اعلان کیا، وزیراعظم نے کہا تمام وسائل فراہم کرنے کو تیار ہیں، اس وقت وسائل کی ضرورت تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں، وزیر اعظم نے طاقتور اور کمزور کی بات کی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم نے جس کیس کی بات کی وہ ابھی زیرالتواء ہے اس لیے اس پر بات نہیں کروں گا، وزیراعظم نے طاقتور اور کمزور کی بھی بات کی، اب ہمیں وسائل کی کمی محسوس ہو رہی تھی، وزیراعظم جب وسائل دیں گے تو مزید اچھے نتائج بھی سامنے آئیں گے، محترم وزیراعظم نے دو دن پہلے خوش آئند اعلان کیا کہ عدلیہ کو وسائل دینگے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم طاقت ور کا طعنہ ہمیں نہ دیں،جس کیس کا طعنہ وزیراعظم نے ہمیں دیا اس کیس میں باہر جانے کی اجازت وزیراعظم نے خود دی، اس معاملے کا اصول محترم وزیراعظم نے خود طے کیا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہمارے سامنے صرف قانون طاقتور ہے کوئی انسان نہیں، اب عدلیہ آزاد ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج کی عدلیہ کا تقابلی جائزہ 2009 سے پہلے والی عدلیہ سے نہ کریں۔ انہوںنے کہاک ہم نے دو وزرائے اعظم کو سزا دی اور ایک کو نااہل کیا، ایک سابق آرمی چیف کا جلد فیصلہ آنے والا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم صاحب کا اعلان خوش آئند ہے مگر ہم نے امیر غریب سب کو انصاف فراہم کرنا ہے، ججز اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتے، ججوں پر اعتراض کرنے والے تھوڑی احتیاط کریں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہیں اور ہمارے منتخب نمائندے ہیں، وزیراعظم کو اس طرح کے بیانات دینے سے خیال کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی شخص میڈیاکی مہربانی سے طاقتور کہلاتا ہے یا اس کی میڈیا پر بہت زیادہ پراجیکشن آجاتی ہے تو یہ اس کا ہرگز مطلب نہیں ہے کہ آپ ان 36لاکھ لوگوں کو بھول جائیں جن کو عدلیہ نے دن رات محنت کرکے انصاف فراہم کیا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم نے پولیس ریفارمز پر کچھ اقدامات لئے ہوئے ہیں ایک بڑی ہائی پاور کمیٹی ہے جس میں سارے آئی جیز ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان اسکی صدارت کرتے ہیں سینئر جج میٹنگ اٹینڈ کرتے ہیں ہم نے فیصلہ کیاکہ لوگ عدالتوں میں کیوں جاتے ہیں پولیس کیخلاف عدالتوں کے پاس اور بڑا کام ہے تو کوئی ایسا فورم بنائیں کہ پولیس کے اندر ہی کوئی ایساسسٹم ہو کہ لوگوں کی داد رسی ہوسکے اور پھر بھی کسی کا کوئی کام نہیں ہوسکتا تو بعد میں عدالت میں آئے اس کیلئے ہم نے ایک ایس پی کمپلینٹ سیل ہرضلع میں بنایا کہ پہلے سائلین وہاں کمپلین لے کرجائیں کہ ایس ایچ او یہ بات نہیں سن رہاتفتیشی یا افسر میرے ساتھ زیادتی کررہا ہے، ہم نے ہر ضلع میں ایس پی کمپلینٹ جو بنائے ہیں جسکے نتائج کمال کے ہیں ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے جتنا ہمیں اس کا رسپانس آرہا ہے۔
ایس پی کمپلینٹ نے ایک لاکھ دوہزار شکایتوں کا کل تک فیصلہ کیا 95ہزار مطمئن لوگ چلے گئے اور وہ آگے کسی عدالت میں نہیں گئے اس کا مطلب ایک لاکھ کے قریب جو کیسز عدالتوں میں آنے تھے وہ اب عدالت میں نہیں آئے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدلیہ اپنا کام پوری دیانت داری اور فرض سمجھ کررہی ہے، ججز اور عدلیہ کی حوصلہ افزائی کریں، ہم بغیر وسائل کے کام کر رہے ہیں، جب وسائل فراہم کیے گئے تو مزید بہتر کام ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان چیف ایگزیکٹو ہیں، ہمارے منتخب نمائندے ہیں، محترم وزیر اعظم کے وسائل فراہم کرنے کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں، وزیرِ اعظم صاحب کا اعلان خوش آئند ہے مگر ہم نے امیر غریب سب کو انصاف فراہم کرنا ہے، ججز اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں ،عدلیہ میں خاموش انقلاب آگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزارتِ قانون نے بہت تعاون کیا، ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، نادرا نے جو تعاون کیا اسکے شکریے کیلئے الفاظ نہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہائی کورٹ میں 15 فیصد رٹ پٹیشن دائر ہونا کم ہو گئی ہیں۔