• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

فوج کے حوالے سے صوبے قانون سازی نہیں کرسکتے، پہلے حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا تعین پھر اگلی بات ہوگی، چیف جسٹس

فوج کے حوالے سے صوبے قانون سازی نہیں کرسکتے، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ


اسلام آباد (نمائندہ جنگ ) عدالت عظمیٰ میں خیبر پختونخواء ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاور) آرڈیننس 2019 کو کالعدم قرار دینے سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ فوج کے حوالے سے قانون سازی صوبوں کا نہیں بلکہ وفاق کا اختیار ہے، پہلے حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا تعین کریں گے پھر اگلی بات ہوگی۔

اگر قانون سازی آئین کے خلاف ہوئی تو آرٹیکل 245 کا تحفظ نہیں ملے گا، آرٹیکل 245 کا تحفظ نہ ہو تو عدالت قانون کا جائزہ لے سکتی ہے، چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد، جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا ء بندیال اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے بدھ کے روز سابق وزیر داخلہ فرحت بابر وغیرہ کی جانب سے دائر آئینی درخواست جبکہ اسی حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کیخلاف دائر وفاقی اور خیبر پختونخوا حکومت کی اپیلوں کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 245 کے تحت فوج کا کام بیرونی خطرات اور جارحیت سے نمٹنا ہے اور آرٹیکل 245 کا دوسرا حصہ طلب کرنے پر فوج کا سول انتظامیہ کی مدد کرنا ہے۔

آئین کے مطابق سول انتظامیہ کی مدد قانون کے تحت ہوگی اور فوج کے حوالے سے قانون سازی صوبوں کا نہیں وفاق کا اختیار ہے، 25ویں ترمیم میں پہلے سے رائج قوانین کو تحفظ نہیں دیا گیا ہے، وفاق نے 25 ویں ترمیم کے بعد کوئی قانون سازی بھی نہیں کی ہے،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق اور صوبے دونوں کو قانون سازی کا اختیار ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوج سے متعلق قانون سازی صوبے نہیں کر سکتے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی کو حراست میں لینے کا اختیار آج بھی صوبوں کے پاس ہی ہے ، سول انتظامیہ کی مدد کے حوالے سے قانون صوبے بنا سکتے ہیں، تفصیلی موقف اپنے بعد کے دلائل میں دوں گا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ دلائل نہیں دے سکتے تھے تو آئے ہی کیوں ہیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر آپ نے جارحانہ ہونا ہے تو میں دلائل نہیں دے سکتا، خیبر پختونخوا حکومت کے لاء افسر نے کہا کہ ایک اختیار فوجی آپریشن اور دوسرا گرفتار افراد کے ٹرائل کا ہے، ٹرائل اور گرفتار افراد کے حوالے سے قانون صوبے ہی بنا سکتے ہیں، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہاکہ وہ فاٹا اور پاٹاکے قوانین کے حوالے سے عدالت کو مطمئن کریں، یہ انتہائی اہم، سنجیدہ اور قانون کی تاریخ کا معاملہ ہے، یہ کئی ہزار خاندانوں اور لاکھوں لوگوں کا معاملہ ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ اس اہم کیس کیلئے سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ترین جج مل کر بیٹھے ہیں، وزارت قانون جا کر کھنگالیں، چیک کریں قوانین کیسے بنے تھے ؟ انہوں نے ریمارکس دیے کہ 2019 میں ایک نیا قانون بنا دیا گیا جیسے پہلے کسی قانون کا وجود ہی نہیں تھا۔

انہوں نے استفسار کیا کہ 2019 سے پہلے بھی قوانین موجود تھے پھر ایسا کیوں ہوا؟ انہوں نے کہا کہ احتیاط سے یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ عموما ایسی مثال دی جاتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادروں کے اہلکاروں کے سروں سے فٹبال کھیلا جاتا ہے۔

تازہ ترین