کراچی (مظہر عباس) اس میں کوئی تعجب نہیں کہ آخر کیوں آزادی کے بعد سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اتنی مضبوط اور جمہوریت اتنی کمزور ہے۔ اگر ہماری عدلیہ نے 1954 ء سے "نظریہ ضرورت" کے ذریعے آمریت کو محفوظ کیا، تو ہمارے سیاستدان بھی پہلے دن سے "منافق" اور کم و بیش جمہوریت مخالف قوتوں کے وفادار رہے۔ تو، پھر آج کیوں سابق صدر اور سابق آرمی چیف ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو بیرون ملک بھیجنے پر اتنا زیادہ "شور شرابہ" مچایا جارہا ہے۔ کیا یہ ہمارے سیاستدانوں کی منافقت نہیں چاہے حکمران ہوں یا اپوزیشن۔ اس روش نے نظام کو غیر مستحکم بنا دیا ہے۔ اس ملک میں ماڈل ایان علی کو بیرون ملک جانے سے روکا جا سکتا ہے۔ اداکارہ عتیقہ اوڈھو پر شراب کی دو بوتلیں رکھنے پر مقدمہ ہوسکتا ہے، لیکن جس کسی نے آئین توڑا وہ آج آزاد ہے ۔ کچی شراب بنانے کے ذمہ دار محفوظ ہیں جس کی وجہ سے اندرون سندھ 54 افراد ہلاک ہوگئے۔ اس میں دو رائے ہوسکتی ہیں کہ کیا مشرف تنہا، 3 نومبر ، ایمرجنسی پلس کا ذمہ دار تھا یا اس کے ساتھ اور بھی لوگ شریک تھے. وہ یہ فیصلہ کرنے والا واحد شخص ہوسکتا ہے لیکن اگر انہوں نے 12 اکتوبر 1999 کے اقدام، لال مسجد آپریشن، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے استعفی لینے کے لئے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا ہوگا، تو یقیناً اس وقت کی سول اور فوجی قیادت کی "کچن کیبنٹ ʼ سے ہی مشورہ کیا ہوگا۔ لیکن کیا یہ 12 اکتوبر کے بعد کیے گئے دوسرے اقدام میں ان کے کردار کو بری الذمہ قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف بجا طور پر وزیراعظم نواز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا شکریہ ادا کررہے ہیں شاید محفوظ راستہ دینے کیلئے، لیکن ہمارے پیارے ریٹائرڈ چیف کو جن جن لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ان کی ایک طویل فہرست ہے. اور پھر انہوں نے بھی تو نواز شریف اور ان کے خاندان کو 2001 ء میں بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ شریف برادران کو 10 سال کے لئے ایک "ڈیل" پر دستخط کرنے پڑے تھے، جبکہ اس وقت ایسی کوئی ڈیل فی الحال سامنے نہیں آئی ہے۔ اس سے واضح طور پر اس ملک میں غیر سویلین اداکاروں کی طاقت کی عکاسی ہوتی ہے۔ لیکن مشرف کا صرف دو سیاست دانوں کا شکریہ ادا کرنا "ناانصافی" ہے۔ انہیں ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں اور عدلیہ کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ جب 12 اکتوبر، 1999 کو انہوں نے ایک منتخب وزیراعظم کو برطرف کردیا جسے دو تہائی اکثریت حاصل تھی، تو اس وقت کی اپوزیشن رہنما بے نظیر بھٹو نے بغاوت کا محتاط خیر مقدم کیا تھا۔ ایک اور سیاسی رہنما عمران خان نے بھی ان کے اقدام کی حمایت کی اور 2002 تک ان کے اتحادی رہے. اس وقت کی اپوزیشن نے نواز شریف کے جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف بنانے کے فیصلے کے خلاف بغاوت کردی تھی۔ جنرل مشرف کو اس وقت کے سپریم کورٹ کے فل بنچ کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے، جس نے 2001 میں نہ صرف ان کے اقتدار کو قانونی جواز فراہم کیا بلکہ انہیں وہ کام کرنے کی بھی اجازت دے دی جس کے انہوں نے درخواست بھی نہیں کی تھی۔ یعنی آئین میں کچھ ترامیم کرنا۔ ہماری عدلیہ ایسی شخص کے ساتھ کتنی فیاض تھی جسے ہم "آمر" قرار دیتے ہیں۔ مشرف کو متحدہ مجلس عمل جو جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کا اتحاد تھی کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے جس نے ایل ایف او کے تحت یا 17 ویں ترمیم کے ذریعے مشرف کو "تحفظ" دینے سے پہلے ان کے ساتھ "ڈیل" کی۔ اور یہ سب اس وقت ہوا جب مشرف کی حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کرچکی تھی اور اس ساری مدت کے دوران ان جماعتوں نے مذمت کی ایک قرارداد بھی پیش نہیں کی۔ ایک بہت بڑا شکریہ پیپلز پارٹی کے لیے بھی بنتا ہے جس نے مشرف کے لیے اپنی ساری جمہوری جدوجہد دفن کردی۔ اول تو یہ کہ ایک محتاط خیر مقدم کے بعد پیپلز پارٹی نے سوچا کہ اس سے انتخابات جیتنے کا موقع مل جائے گا. لیکن ہوا یہ کہ مشرف نے 2002 ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف پر پابندی لگا دی۔ دوسرا پیپلز پارٹی نے این آر او پر دستخط کرکے سب سے بڑی غلطی کی۔ اور وہ بھی اس وقت جب وہ پہلے نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کرچکی تھی۔ دکھ کی بات یہ کہ مشرف نے ایک بار پھر پلٹا مارا اور انتخابات کے بعد بی بی سے پاکستان آنے کے لئے کہا۔ وہ پہلے آگئیں اور قتل کردی گئیں، جو کئی لوگوں کے مطابق ایک بہت بڑی سازش تھی۔ مشرف کو آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائرمنٹ اور 2008 ء کے انتخابات میں پی پی پی فتح کے بعد محفوظ راستے کیلئے سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کا بھی خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پورے دور میں بینظیر قتل میں مشرف کے مبینہ طور پر ملوث ہونے پر حتیٰ کہ سابق آرمی چیف سے "پوچھ گچھ" بھی نہیں ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں وہ ایک آزاد انسان تھے۔ مشرف کو اپنے پرانے ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے، جن میں سے کچھ نے ٹی وی " ٹاک شوز" میں ان کا کیس لڑنے کے لیے " دفاعی تجزیہ کار" کے طور پر میڈیا میں جگہ حاصل کر لی۔ ان اینکرز کے لئے بھی خصوصی شکریہ جنہوں نے اپنے انداز میں بہت مضبوطی سے ان کا کیس لڑا۔ آخر میں سابق جنرل کو ان لوگوں کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے جنہیں اس نے ایک مشکل پوزیشن میں ڈال دیا۔ نہ آنے کے ان کے مشورے کے باوجود اس نے آنے کا فیصلہ کرکے انہیںشرمناک پوزیشن میں ڈالا اور ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ اسے بچائیں یہاں تک کہ بالاخر اسے "علاج" کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت مل جائے۔ اگرچہ، گزشتہ 68 سال میں، ہماری عدلیہ نے ہر مارشل لاء اور اسمبلیوں کی ہر تحلیل کو تحفظ دیا، لیکن 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کو کبھی قانونی تحفظ نہیں ملا. سویلین حکمران "سمجھوتوں" کے ذریعے اقتدار میں آئے لیکن حزب اختلاف اکثر اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیلتی رہی، کچھ نے تو "امپائر کی انگلی" اٹھنے کا بھی انتظار کیا۔ لہذا، اگرچہ مستقبل میں امید کی چند ہی علامات ہیں کہ حکومتیں صرف اور صرف انتخابات کے ذریعے ہی تبدیل ہوں، سچے جمہوریت پسندوں کے لئے جمہوریت اب بھی ایک "خواب" ہی ہے۔ لہذا یہ بہتر ہوگا کہ جماعتیں الزامات کا کھیل بند کریں اور آگے بڑھیں۔