• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فاطمہ احمد

کہتے ہیں ایران کا بادشاہ ایک دن شکار کھیلتے ہوئے چراگاہ پہنچ گیا ،جہاں اس کے گھوڑے چرا کرتے تھے۔شاہی گھوڑوں کے چرواہے نے بادشاہ کی صورت دیکھی تو قدم بوسی کے لیے جلدی سے آگے بڑھا۔ بادشاہ نے اسے اپنا کوئی دشمن سمجھا اور فوراً ترکش سے تیرکھینچا۔ بادشاہ جب کمان میں جوڑ کر تیر چلانے لگا تو چرواہا چلایا۔ عالم پناہ! میں دشمن نہیں ۔ 

شاہی گھوڑوں کی نگرانی کرنے والا گلہ بان ہوں۔ شاہی چراگاہ کاچرواہا ہوں۔بادشاہ نے کمان سے ہاتھ کھینچ لیا اور تیر ترکش میں رکھتے ہوئے کہا،’’تُو خوش قسمت ہے کہ بچ گیا ۔ ہم نے تو کمان کاچلہ چڑھا لیا تھا۔ اگر تو ایک پل اور خاموش رہتا تو تیرا کام تمام ہوچکا ہوتا۔خاک اور خون میں تیری لاش تڑپ رہی ہوتی‘‘۔

چرواہے نے ادب سے جھکتے ہوئےعرض کیا،’’عالم پناہ! اچنبھے کی بات ہے کہ اعلٰی حضرت نے اپنے غلام کو نہ پہچاناجب کہ میں کئی بار قدم بوسی کے لیے شاہی دربار میں حاضر ہوچکا ہوں۔ میں ایک معمولی چرواہا ہوں، مگر اپنے گلے کے ایک ایک گھوڑے کو پہچانتا ہوں۔ 

حضورِ والا! جس گھوڑے کو طلب فرمائیں لاکھ گھوڑوں سے نکال لاؤں۔ بادشاہ کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی رعایا کے ہر بندے کو جانتا پہچانتا ہو۔حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ حکمران اور رعایا،رہنما اور کارکن کے درمیان گہرا رابطہ ہونا چاہئے۔کسی بھی ذمہ دار کو اپنی ذمہ داری سے آشنا ہونا چاہیے۔ اگر رعایا کو نہ جانے پہچانے گا تو رعایا بھی اسے نہیں جانے پہچانے گی۔

تازہ ترین