وزیراعظم عمران خان نے جب بائیس سال پہلے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تو سب سے پہلا نعرہ جو انھوں نے عوام کو دیا وہ روایتی سیاست کو ختم کرنے کا تھا۔ عمران خان موروثی سیاست کے سب سے بڑے مخالف تھے اور وہ نوجوانوں کو سیاست میں زیادہ سے زیادہ حصہ دینے کے حق میں تھے۔ چونکہ عمران خان ایک سلیبرٹی تھے اس لئے نوجوانوں نے اُن کے اس نعرے پر لبیک کہنا شروع کیا اور عمران خان کی سیاسی جماعت میں روایتی سیاستدانوں سے ہٹ کر نوجوان آگے آگئے۔ وقت گزرتا رہا اور عمران خان سیاسی میدان میں کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہ دے سکے۔ پھر عمران خان کی سیاست 2010ء میں داخل ہوگئی۔ جہاں پاکستان کے عوام نے دیکھا کہ عمران خان کی سیاست نے ایک یوٹرن لیا اور کئی روایتی سیاستدان عمران خان کی پارٹی میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ مرکزی حیثیت اختیار کرگئے، رفتہ رفتہ شامل ہونے والوں میں پرویز خٹک، جہانگیر ترین، شاہ محمود، علیم خان، جاوید ہاشمی، فواد چوہدری، فردوس عاشق، شفقت محمود وغیرہ جو روایتی سیاست کے علمبردار تھے، عمران خان کے دست و بازو بن گئے۔ عمران خان نے جب دیکھ لیا کہ اس کے بغیر وہ اقتدار کے مسند تک نہیں پہنچ سکتے تو انھیں مصلحت سے کام لینا پڑا اور روایتی سیاستدانوں کے خلاف لگایا جانے والا نعرہ کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف جدوجہد میں بدل گیا۔ مگر آگے جاکر ہم نے دیکھا کہ سپریم کورٹ سے جب جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا گیا اور نیب نے جب عمران خان کے قریب ترین ساتھی علیم خان کو گرفتار کیا تو عمران خان کو یہاں بھی مصلحت سے کام لینا پڑا اور کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف اُن کا نعرہ اُس وقت کمزور پڑگیا جب اُن کی پارٹی اور حکومت کے مرکزی اجلاسوں کی جہانگیر ترین صدارت کرتے نظر آئے۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے تعلیم اور میرٹ کو اپنا صف اول کا ایجنڈا بتایا مگر یہاں بھی اُنھیں مصلحت سے کام لینا پڑگیا جب پنجاب کی وزارت اعلیٰ ایک ایسے شخص کو دینا پڑگئی جنہوں نے خود کئی مواقع پر کہا کہ میں ابھی سیکھ رہا ہوں۔ پنجاب کو پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے اور اس صوبے کی ترقی سے پورے ملک کی ترقی وابستہ ہے مگر اس صوبے کی حکمرانی ایک ایسے سیاستدان کو دے کر جو خود ابھی سیکھنے کے مراحل میں ہے، عمران خان نے خود اپنے وعدے کی نفی کر دی کہ میرٹ اور تعلیم مقدم ہے۔ یہی نہیں خیبر پختونخوا کا گورنر ایک واجبی تعلیم والے شخص کو لگا دیا، حالانکہ اس کے سامنے جامعات کے پی ایچ ڈی وائس چانسلرز حاضری بھرتے ہیں۔ عمران خان کے مصلحت سے کام لینے کا سفر اب موٹرویز تک پہنچ گیا ہے۔ پہلے وہ ببانگ دہل کہتے تھے کہ میں سڑکیں نہیں تعلیمی ادارے بناؤں گا مگر ابھی تک تعلیمی ادارہ کوئی بھی نہ بن سکا مگر عمران خان موٹر ویز کے افتتاح پر افتتاح کیے جارہے ہیں جن میں سے کئی پہلے ہی تکمیل تک پہنچ چکی ہیں۔ مصلحتوں سے کام لینے کی کہانی یہیں نہیں رُکتی بلکہ آگے اور بھی ہے۔ اسد عمر کو انتخابات سے پہلے ایک مسیحا کے طور پر پیش کرنے والے خان نے حفیظ شیخ سے تبدیل کرکے ایک ایسی مصلحت سے کام لیا جس کا ڈنکا آج تک بج رہا ہے۔ IMF نہیں جائوں گا نتیجہ مصلحت، ڈالر نہیں بڑھے گا نتیجہ مصلحت۔ ایک کروڑ نوکریاں دوں گا نتیجہ مصلحت، لوٹوں کو پارٹی سے دور رکھوں گا نتیجہ مصلحت۔ سب سے بڑی مصلحت جس کا تذکرہ نہ کرنا یقیناً ایک جرم ہوگا وہ نواز شریف کو بیرونِ ملک جانے دینے کی اجازت ہے جس کا عمران خان نے اپنی تقریر میں بھی اعتراف کیا کہ میں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایسا کیا تاہم پاکستانی عوام اسے کسی اور نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ بار بار عمران خان کو وہ نعرہ یاد دلارہے ہیں جس میں عمران خان باآواز بلند کہتے رہے کہ میں کسی کو NROنہیں دوں گا۔ پی ٹی آئی کےحامی جو نواز شریف کے جیل جانے سے بہت خوش تھے، اب شدید صدمے میں ہیں۔ مسلم لیگ نواز کی لیڈر شپ اسے سچ کی فتح قرار دے رہی ہے مگر وزیراعظم عمران خان کو شدید ترین تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ خان جو ہر کرپٹ کو جیل میں ڈالنے کے لیے بے چین ہے اُس کے اپنے وزیر جیل میں قید دوسرے کرپٹ لوگوں خصوصاً بیماروں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ صاف پتا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کو اپنا بیانیہ اُلٹا پڑ گیا ہے کیونکہ آج تک جیل میں قید قیدیوں کی رہائی کا حکومتی وزراء کی طرف سے مطالبہ نہیں کیا گیا۔ مصلحت سے کام لینے والے خان کی یہ ایک بہت بڑی سیاسی شکست ہے، چاہے اس میں سب کچھ انسانی ہمدردی اور ایمانداری کی بنیاد پر ہوا ہو لیکن یہ ایک ایسا زخم بن گیا ہے جس پر روز مرہم لگانا بھی کارگر نہیں رہتا۔