• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

سب بُرا، بہت بُرا

سنڈے میگزین بہت ہی بُرا میگزین ہے۔ عرصے سے ایک ہی ڈگرپر چل رہا ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں بڑے بڑے خطوط شایع نہ کیا کریں، ہر خط کی جامع ایڈیٹنگ کیا کریں، نوک پلک سنوارا کریں اور سلسلے وار ناول عبداللہ تو بہت ہی فضول ہے۔ وہی کار ریسنگ، ٹرین، لڑکیاں، وہی عشق و محبت کے قصّے۔ سب بے کار باتیں ہیں۔ (نواب زادہ خادم ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: لگتا ہے، آج بیلن ڈائریکٹ سر پر لگا ہے۔ ویسے ہم آپ کی حالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ایک تو بے روزگاری، اُس پر آپ کی بے پَر کی ہانکنے کی عادت۔ کسی طرح کا بھی ردّعمل آسکتا تھا۔

گرویدہ ہوگیا، شدّت سے انتظار

5 ماہ بعد ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں خط لکھا رہا ہوں، وجوہ کیا تھیں، پچھلے خط میں بتا چُکا ہوں۔ خیر، ’’سنڈے میگزین‘‘ پڑھنے کا موقع ملا۔ کشمیریوں کا دُکھ پڑھ کر آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔ سرِورق نے تو رُلا دیا۔ ایک کشمیری ماں، اُس کی مظلوم بیٹی اور گود میں معصوم بیٹا۔ بس، ہاتھ دُعا کے لیے اُٹھا دیئے کہ ’’اے میرے رب! کشمیر کو ان ظالم جلّادوں سے آزادی دِلا‘‘۔ پورا ’’کشمیر نمبر‘‘ بےمثال تھا۔ اگلے شمارے میں تیکھے، منفرد اسلوب کے مالک معروف کالم نگار، محقّق، محمّد بلال غوری کی پُرمغز، فکرانگیزگفتگوپڑھی۔انہوں نےتیکھے،نوکیلے سوالوں کےجوابات بھی بڑی عُمدگی سے دیئے، میں تو گرویدہ ہوگیا۔ اب باقاعدگی سے اُن کا کالم پڑھوں گا۔ ’’عبداللہ‘‘ ناول کا جواب نہیں۔ آئندہ قسط کا شدّت سے انتظار رہتا ہے۔ (ظہیر الدّین غوری، سرگودھا)

شاعرہ چُھپی ہے!!

زندگی کے گورکھ دھندے تو چلتے رہتے ہیں۔ بس، اللہ سے دُعا یہ کرنی چاہیے کہ وہ ہماری کمیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کو اپنی رحمت کی برکھا سے دھو ڈالے۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ میں ’’عبداللہ‘‘ اب ایکشن کے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے اور شاید تیزی سے اپنے انجام کی طرف محوِ سفر ہے۔ میرے خیال میں تو ’’زرد پتّے‘‘ بھی ناقابلِ اشاعت تحریر تھی، مگر یہ بتانے کے لیے آپ نے پوری تحریر ہی شایع کرکے فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا۔ محمّد بلال غوری کی باتیں بہت پسند آئیں، لیکن ایک طرف تو وہ فرمارہے تھے کہ اگر کسی کو اپنے کام سے عشق نہیں، تو محض بزرگی کی بنیاد پر کسی کو بڑا صحافی تسلیم نہیں کیا جاسکتا، لیکن دوسری طرف یہ بھی کہا کہ مُلک کی تنزّلی کا آغاز اُسی وقت ہوگیا تھا، جب لیاقت علی خان نے کئی سینئر جرنیلوں کو نظرانداز کرکے ایوب خان کو آرمی چیف بنایا۔ کیا اُن کی باتوں میں یہ کُھلا تضاد نہیں؟ جب کہ ایوب خان کی اہلیت کی بات کریں، تو پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جتنی ترقی ایوب دَور میں ہوئی، اب تک کسی دَور میں نہ ہوسکی۔ نرجس ملک صاحبہ! کبھی کبھی آپ کا رائٹ اپ دیکھ کر محسوس ہوتا ہے، جیسے آپ کے اندر ایک بہت بڑی شاعرہ چُھپی بیٹھی ہے، لیکن جریدے کی ذمّے داریاں اس چنگاری کو بھڑکنے نہیں دیتیں۔ شفق رفیع نے کوچنگ سینٹرز سے متعلق بڑا عمیق، جان دار تجزیہ کیا۔ میرا تو خیال ہے،پاکستان میں خود رَو جھاڑیوں کی طرح جگہ جگہ اُگےان کوچنگ سینٹرز، اسکولز، کالجزکو بند کردینا چاہیے۔ یہ علم کے مراکز نہیں، بزنس سینٹرز (پیسے بنانے والی مشینیں) ہیں۔ اور منور مرزا کی تجاویز تو اچھی تھیں، لیکن میرا نہیں خیال کہ عمرانی دَور میں کبھی سیاسی استحکام بھی آسکتا ہے۔ (عبدالسلام صدیقی بن عبیداللہ تائب، خیام بس اسٹاپ، نیوکراچی، کراچی)

ج: اب چوں کہ آپ باقاعدگی سے خطوط نگاری فرمانے لگے ہیں، تو آپ سے دست بستہ التماس ہے کہ خط کے آخر میں دو خالی صفحات چھوڑنے کے بجائے براہِ کرم حاشیہ اور سطر چھوڑ کر لکھنے کی عادت ڈالیں۔ ایڈیٹنگ کرتے ہمارا دَم گُھٹنے لگتا ہے، الفاظ کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ اور آپ کا اندازہ بالکل غلط ہے، شعروشاعری کی کوئی چنگاری ونگاری قطعاً بھڑکنے کو تیار نہیں۔ ہمارا اچھا شعری ذوق ضرور ہے، لیکن خود کرنے کا قطعی کوئی شوق نہیں۔

ہر ایک کے بس کی بات!!

تازہ شمارہ دیکھا، دل کو بھا گیا۔ ویسے نرجس جی! آپس کی بات ہے، آپ ماشاء اللہ بہت ہی ذہین و فطین ہیں کہ جس ذہانت اور عُمدگی سے آپ قارئین کو خطوط کے جوابات دیتی ہیں، وہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ خود مجھے پچھلے خط کا جو جواب دیا۔ مَیں بے اختیار ’’واہ واہ واہ‘‘ کہہ اٹھا۔ کشمیر کے سُلگتے موضوع پر اس قدر شان دار، مثالی جریدہ تیار کرنے پر بھی مَیں آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ شاباش۔ شاباش اور شاباش۔ (اسلم قریشی، ملیر، کراچی)

ج: شکریہ، شکریہ، اور شکریہ…ویسےشاید یہی وجہ ہے، جو ادارے نے پچھلے کئی برس سے ’’سنڈے میگزین‘‘ کی ایڈیٹر شپ سے نواز رکھا ہے۔

جامع، خوب صُورت، اعلیٰ مضمون

منور راجپوت نے کشمیر پر کیا ہی جامع، خُوب صُورت اور اعلیٰ مضمون تحریر کیا، پڑھ کر دل خوش ہوگیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی موجود تھے اور ہمیں حضرت ذوالکفلؑ کے حالاتِ زندگی سے آگاہ کر رہے تھے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں طلعت عمران کی کشمیر سے متعلق کاوش کا جواب نہ تھا۔ رئوف ظفر نے بھی وادئ کشمیر سے متعلق کلامِ اقبال نقل کرکے روح گرمادی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں جنّت نظیر کے پکوان بہت پسند آئے اور ان سب کے ساتھ آپ کی تحریر تو گویا سونے پہ سہاگا تھی۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

دل سے مدّاح

’’سنڈے میگزین‘‘ کے کُنج میں ڈبکی مار کر ’’آپ کا صفحہ‘‘ سے شمعِ قلم کی لوَ بڑھاتی ہوں۔ کم و بیش سب ہی لکھاری اپنا اپنا بہترین پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مَیں فاروق اقدس، منور مرزا، منور راجپوت، ڈاکٹر قمر عباس، ہاشم ندیم سب کی دل سےمدّاح ہوں، خطوط نگاروں میں پروفیسر سیّد منصور علی خان، مجیب ظفر انوار حمیدی، شہزادہ بشیر محمد نقش بندی، نواب زادہ خادم ملک، محمد سلیم راجا، پرنس افٗضل شاہین کا اندازِ تحریر خُوب بھاتا ہے اور آپ کے اندازِ نگارش سے متعلق کیا کہوں، اُس کا تو ایک عالم مدّاح ہے۔ ویسے مَیں اخبار میں کالم لکھنے کی خواہش مند ہوں کیا ممکن ہے؟ (امّ حبیبہ نور)

ج:اردو زبان میں کالم نگاری تو تمہارے بس کا روگ نہیں کہ تمہارے صرف دو صفحات کا مفہوم سمجھنے میں ہمارا لگ بھگ ایک گھنٹہ تو ضایع ہو ہی جاتا ہے اور آج کے دَور میں ہم جیسے سرپھرے نایاب ہی ہیں کہ عمومی طور پر جس تحریر کی ابتدائی چند سطریں سر سے گزر جائیں، اُسے فوراً سے پیش تر ڈسٹ بن کی نذر کرنے کی روایت ہے۔ ہماری طرح سر کھپائی، مغزماری ہرکوئی نہیں کرسکتا۔

کے۔ جی کے بچّے کو

بچپن، عُمر کا بہترین حصّہ ہے۔ بچّہ دن بھر کھیلتا ہے، کوئی کام نہ کوئی ذمّے داری اور پھر بھی اس کی معصوم مسکراہٹ سے خاندان بھر کے مَن میں خوشی کے لڈّو پُھوٹتے رہتے ہیں۔ اس سنڈے میگزین نے بھی لی انگڑائی کہ تبدیلی آئی۔ پھول سے بچّے مثلِ مکھن ملائی، ادا بہت بھائی۔’’ماشاءاللہ‘‘ کہہ کر سرِورق پلٹتے ہوئے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ سے آغازِ مطالعہ کیا، جہاں منور مرزا یو این جنرل اسمبلی کےاجلاس کی رپورٹ کےساتھ حاضرِ خدمتِ قارئین تھے۔ اجلاس میں ’’کشمیریوں کے سفیر‘‘ نے تقدیرِ کشمیربدلنےکےلیےسعی باتدبیر بذریعہ تقریرِپُرجوش کی۔ ہم سمیت پوری قوم ’’تقریر پلس‘‘چاہتی ہے۔ کالم نگار محمّدبلال غوری نے رئوف ظفر کے ساتھ ’’گفتگو‘‘ میں برملا کہا، ’’احتساب کی تلوار صرف ناپسندیدہ سیاست دانوں ہی کو کاٹتی ہے‘‘ حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کے کتنے کتنے افراد اس وقت پسِ زنداں ہیں، اس سے عمرانی دَور کے وَن وے ٹریفک (احتساب) کا، کے جی کلاس کے بچّے کو بھی پتاچل سکتاہے۔ 24ستمبر کاحالیہ زلزلہ میرپور، راجا حبیب اللہ خان کے مضمون کا موضوع تھا۔ ’’سرزمینِ تبدیلی‘‘ پرجب غریب کے معاشی قتلِ عام کے ساتھ احتساب خاص خاص ہو، تو ایسی جغرافیائی تبدیلیاں ’’اہلِ بندوبست‘‘ کے لیے قدرتی الرٹس ہیں۔ ناول ’’عبداللہ‘‘ اچھا جارہا ہے کہ ریسپانس بھی خاصا حوصلہ افزا و خوش آئند ہے۔ کرداری مردوزن کی پیلی و نیلی تصویر دیکھ کر تفہیم ہوجاتی ہے کہ آگ ہے دونوں طرف برابر لگی ہوئی۔ ہفتہ رواں، آپ نےدو عالمی ایّام (ذہنی صحت و بصارت) پر خصوصی مضامین شایع کیے، مگر 5اکتوبر ’’ورلڈ ٹیچرز ڈے‘‘ مِس کر گئے۔ مولانا اور خانِ خاناں کے ملاکھڑے کے تناظر میں میڈم نورجہاں یاد آرہی ہیں ؎ تیرا عشق وی اے پاگل، میرا حُسن وی اے دیوانہ… ٹکرا گئے جے دونویں کجھ ہو جائے گا بے ایماناں، رب خیر کرے! ہماری مدیرہ صاحبہ باتدبیر باذوق و بامروّت باس ہیں اور ہمارا ادارئہ جنگ صلحِ کُل اور مرنجاں مرنج ہے۔ جس کا ماٹو ’’بامسلماں اللہ اللہ، بابرہمن رام رام‘‘ (ہر ایک سے دوستی کسی سے دشمنی نہیں) ہے۔ ساری خدائی خدا کا کنبہ، تمام پاکستانی سیاست سے بالاتر، قومِ واحد ہیں اور قومی یک جہتی ایٹم بم سے بڑھ کر طاقت وَر ہے۔ رحمت ربّ دی، خیر سب دی۔ (محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: مگر کیا ہی افسوس کا مقام ہے کہ جس امر کا اندازہ کے۔جی کے بچّے کو ہو سکتا ہے، اس پہ’’قومِ یوتھ‘‘ ہنوز ریت میں سر چُھپائے بیٹھی ہے۔

بجا طور پر حق دار

میگزین کی کیا بات ہے۔ اتوار کی صبح ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے میگزین اُسے مل جائے۔ اور میگزین بھی پھر ہر ایک کی اُمیدوں پر پورا ہی اترتا ہے۔ اس بار ’’سرچشمۂ ہدایت ‘‘ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قصّہ بہترین تھا۔ بہ خدا بے شمار باتیں پہلی بار پتا چلیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ پڑھ کر دل دُکھی ہوگیا۔ محمود احمد خان کا انٹرویو اچھا تھا۔ عالیہ کاشف نے امجد صاحب کی جو نظم تحریر کی، زبردست تھی۔ ماڈل کے ڈریسز بھی پسند آئے، مشرقیت ٹپک رہی تھی۔ ’’عبداللہ‘‘ کی تو بات ہی کیا ہے ’’نئی کتابوں‘‘ کا تعارف اس بار نرجس ملک نے کروایا۔ نرجس جو کام کرتی ہیں، لاجواب، بے مثال کرتی ہیں۔ اس قدر شان دار الفاظ میں تبصرہ لکھا کہ جی موہ لیا۔ واقعی وہ آج جس مقام پر ہیں، اُس کی بجا طورپر حق دار ہیں۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس سے بہت معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ’’رشتوں کی مالا‘‘ اچھا لگا اور حیدرآبادی کھانوں کی ڈشز بھی زبردست تھیں۔ ناقابلِ فراموش کی کہانیاں پسند آئیں اور ’’آپ کا صفحہ ‘‘ پڑھ کر تو بہت ہی مزہ آتا ہے۔ خاص طورپر مدیرہ کا انتہائی دانش مندی سے جواب دینا اور ہر ایک کو لاجواب کردینا۔ (شاہدہ ناصر،گلشن اقبال، کراچی)

ج:بہت بہت شکریہ شاہدہ۔ بس یہ سب کچھ آپ لوگوں کی حوصلہ افزائی ہی کے سبب ہے۔

پہلی بار بسیرا

ایک طویل عرصے (ڈھائی برس) کے بعد ’’صفحہ دوستاں‘‘ میں شریک ہونےجارہا ہوں، گرچہ تخیّلاتی نامہ ہائے نیاز بارہا تشکیل دے چُکا ہوں۔ میگزین سامنے دھرا ہے، سرِورق پر خُوب صُورت پھولوں کے جلو میں جلوہ گر مَن موہنے بچّوں کی تصاویر دیکھ کر اپنے بچپن کا تصوّر بندھا کہ جب ذہن و دل دنیا کو پراگندگیوں سے سفید کاغذ کی مانند پاک اور زندگی فکر و اندیشوں سے ماورا گزر رہی تھی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں آزاد کشمیر میں آنے والے زلزلہ بلاخیز کا احوال پڑھ کر بے اختیار 2005ء کا ہول ناک زلزلہ یاد آگیا۔ منور مرزا اقوامِ متحدہ کے 74ویں اجلاس کی رُوداد کی جزئیات نگاری کرتے دکھائی دیئے۔کوئی مانےنہ مانےمذکورہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے ہر پاکستانی کے دل کی آواز بطریقِ احسن پیش کی۔ سنڈے اسپیشل میں شفق رفیع ٹیوشن کلچر کے خلاف دُہائی دے رہی تھیں، مگر بندہ اپنے تجربے کی بنیاد پر عرض کرتا ہے کہ بچّے کی تعلیمی اٹھان میں ٹیوشن کی اہمیت مسلّم ہے۔ معروف کالم نگار، محمد بلال غوری کی سیاسی باتوں سے صرفِ نظر کیا، البتہ ذاتی زندگی کے حالات و واقعات پڑھنے میں بڑا لُطف آیا۔ ناولز کے لیے کیا عشق و عاشقی کے سوا کوئی موضوع باقی نہیں بچا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی بات کروں، تو کئی توتے، مینائیں تو غالباً ہمیشہ کے لیے اُڑ گئے۔ کچھ کبھی کبھار آبیٹھتے ہیں اور کئی طیور کو تو شاخ پر پہلی بار ہی بسیرا کیے دیکھا۔(احسان اللہ خاں حسنی،وادئ کوئٹہ سے)

ج:جی بالکل، ایسا ہی ہے، لیکن اس میں ہرج بھی کیا ہے۔ آپ کا صفحہ، ہر ایک کا صفحہ ہے۔ اب چاہے کوئی ہر ہفتے آئے، ہر سال یا پھرڈھائی سال بعد۔

پسندیدہ ترین جریدہ

عرصہ تین سال بعد آپ کی بزم میں شریک ہورہا ہوں۔ امید ہے ماضی کی طرح حوصلہ افزائی کریں گی۔ پچھلے 40برس سے مَیں جنگ اخبار کا قاری ہوں اور ’’سنڈے میگزین‘‘ میرا پسندیدہ ترین جریدہ ہے۔ اس کے مندرجات کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کے لیے دو غزلیں پیشِ خدمت ہیں، قابلِ اشاعت ہوں، تو شامل کرلیجیے گا۔ (قدیر رانا،راول پنڈی)

ج:جی، قابلِ اشاعت ہوئیں، تو باری آنے پر شامل ہوجائیں گی۔

ایمان داری سے بتائیں

محمد بلال غوری کا تفصیلی، فکرانگیز انٹرویو پڑھا۔ ٹھیک ہے، ہر بندے کی اپنی سوچ ہوتی ہے، اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی، لیکن مَیں بلال صاحب سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں، اگر یہ دونوں فیملیز (میاں اور بھٹو فیملیز) پاکستانی عوام کا بیڑہ غرق نہ کرتیں تو آج مُلکی حالات کافی بہتر نہ ہوتے۔ آپ صرف ایک بات ایمان داری سے بتائیں۔ کیا زرداری اور میاں صاحب کرپٹ نہیں؟ (نیازی،کوئٹہ)

ج:بلاول غوری تو جب آپ کا خط پڑھیں گے، تب جواب دیں گے۔ آپ ہمیں ایک بات بتائیں کیا اس مُلک میں صرف یہ دو فیملیز ہی کرپٹ ہیں، باقی سب ٹھیک ہیں۔ حکومت کا اصل بیڑہ غرق تو آلیوں موالیوں کی کرپشن اور نااہلی سے ہوتا ہے، اکیلے حکمران کے ایمان دار یا بے ایمان ہونے سے کچھ نہیں بنتا، بگڑتا۔ وگرنہ اس ایک سال میں تو مُلک کو ترقی کی معراج پہ پہنچ جانا چاہیے تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج بھی آلی موالی وہی ہیں، جو ان دو خاندانوں کے ادوار میں تھے۔ تو آپ ان دو کرپٹ خاندانوں کو لاکھ سیاست سے باہر کردیں، باقی کرپٹ، مُلکی حالات میں کوئی سدھار نہیں آنے دیں گے۔

                                                                                           فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

شمارہ موصول ہوا، سرِورق پر ماڈل پورے رنگ و رُوپ کے ساتھ براجمان تھیں۔ منور مرزا نے خارجہ پالیسی کی کام یابی کو داخلی استحکام اور مضبوط معیشت سے مشروط کیا۔ بلاشبہ، مضبوط معیشت ہی جان دار خارجہ پالیسی میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے کہ گداگروں، بھکاریوں کو کوئی لفٹ نہیں کرواتا، خواہ کیسی ہی جوشیلی، دل پذیر تقریر کرلیں۔ ڈاکٹر غفران عالمی یومِ خوراک کے موقعے پر فکر انگیز مضمون لائے۔ اُن کے بقول خوراک اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کو ضایع نہیں کرنا چاہیے اور ایک آپ کی ہدایت کہ کاغذ کے ایک طرف لکھیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں حضرت یحیٰی علیہ السلام کے حالاتِ زندگی مطالعہ کیے۔ شہادت کا الم ناک واقعہ پڑھ کر دل بےحد مغموم ہوا۔ طلعت عمران، درندہ صفت مودی سرکار کی اسلام دشمنی بیان کر رہے تھے کہ وہاں کس طرح شہروں، علاقوں کے اسلامی نام تبدیل کرکے اپنی کمین فطرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ منور راجپوت نے معروف بلڈر، محمود احمد خان سے اچھی بات چیت کی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر ماڈل ڈاکٹر فاریہ اسلم کی (ڈاکٹر کے نام پر کچھ حیرانی سی ہوئی کہ اب اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین بھی ماڈلنگ کو بہ طور پروفیشن اپنارہی ہیں) ماڈلنگ اور رائٹ اپ دونوں اچھے لگے۔ ناول عبداللہ کو تو ہاشم ندیم اُس کے عروج تک لے گئے ہیں۔ ایک ایک سطر دل چسپی سے پڑھی جاتی ہے۔ ’’متفرق‘‘ میں نجم الحسن عطا شعبہ صحت سے شکوہ کناں دکھائی دیئے، مگر ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر حسن دوست آفریدی نے گٹھیا کے مرض سےمتعلق بہترین آگاہی فراہم کی۔ ’’نئی کتابیں.....‘‘ ارے یہ کیا، یہاں تو ایڈیٹر صاحبہ بہ قلم خود براجمان ہیں۔ زبردست بھئی، ویسے تو ہم آپ کی قابلیت اور صلاحیتوں کے ہمیشہ سے معترف ہیں، مگر اس بار تو بہت ہی خوش گوار حیرت ہوئی۔ ایسا بے لاگ اور پُرمغز تبصرہ بس آپ ہی کا خاصّہ ہوسکتا تھا۔ خاص طور پر فاطمہ صغریٰ قادر کی آب بیتی پر کیا جانے والا تبصرہ پڑھ کر تو لُطف آگیا۔ کتاب پڑھنے کو شدت سےجی مچل اٹھا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں عروسہ شہوار رفیع معاشرے کی موجودہ روش کا گِلہ کررہی تھیں کہ اب رشتوں کی مالا ٹوٹ رہی ہے۔ واقعی ہمیں اپنے بزرگوں کی تہذیب و روایات کا تقدّس کسی نہ کسی طور برقرار رکھنا ہی چاہیے۔ شاہدہ انجم کے ٹوٹکے بھی معلوماتی تھے۔ ناقابلِ فراموش کی دونوں کہانیاں سبق آموز لگیں۔ اور اب بات ہمارے صفحے کی، آخر پروفیسرمجیب ظفرانوارحمیدی کی مستقل مزاجی رنگ لے ہی آئی یا شاید آپ ہی نے ہار مان لی۔ اور بالاآخر وہ اعزازی چٹھی کے حق دار ٹھہرے۔ دیگر خطوط بھی اس بار اچھے ہی تھے۔ (شہزادہ بشیر محمد نقش بندی، میرپورخاص)

ج:عنبریں حسیب عنبر کا اک شعر ہے ؎ مچل رہا تھا دل بہت، سو دل کی بات مان لی…سمجھ رہا ہے ناسمجھ کہ داؤ اس کا چل گیا۔ اب جس کو جو سمجھنا ہے، سمجھ لے۔ ہمیں تو پروفیسر صاحب سےصرف طوالت اور غیرضروری گفتگو کی شکایت ہے، وگرنہ ان کے پروفیسر ہونے پر تو کوئی شبہ نہیں۔

گوشہ برقی خُطوط
  • بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ ہر سال ’’محرم الحرام ایڈیشن‘‘ پر الٹ پلٹ کے وہی تصویر لگادی جاتی ہے۔کیا حسینیت پرکام کےلیےمواداور موضوعات کی کوئی کمی ہے۔ (محمّد رضا)

ج: دراصل ’’محرم الحرام ایڈیشن‘‘ اور ’’ربیع الاوّل ایڈیشن‘‘ کے ٹائٹلز اور سینٹر اسپریڈز کی تیاری کی ذمّےداری حافظ محمد ثانی صاحب اور محمّد بشیر بابر کی ہے۔ بہرحال، آئندہ برس سے ہم خود بھی کچھ تبدیلی لانے کی کوشش کریں گے۔ نشان دہی کا شکریہ۔

  • ’’عبداللہ‘‘ ناول کا انتخاب اگر آپ نے کیا ہے، تو آپ کو سیلوٹ پیش کرنا چاہتی ہوں۔ بخدا، بے شمار ناول پڑھے، مگر ایسی مربوط، دل چسپ، سنسنی خیز کہانی کم ہی ناولز میں پڑھنے کو ملی۔ ’’محرم الحرام ایڈیشن‘‘ میں کربلا کے شہیدوں کے لیے بہترین الفاظ کا نذرانہ پیش کیا گیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا سلسلہ بہت پسند ہے۔ اور ایک گزارش ہے کہ جس طرح آپ ہر معاملے میں نیوٹرل رہتی ہیں۔ سیاسی وابستگی کے اعتبار سے بھی رہا کریں۔ (فوزیہ گلزار قریشی)

ج: آپ کی غلط فہمی ہے، ہم تو کسی بھی معاملے میں نیوٹرل نہیں رہتے۔ مٹّی کا کوئی بے جان بُت، کوئی کٹھ پُتلی تھوڑا ہی ہیں کہ بے حِسی کا لبادہ اوڑھ لیں۔ دوسروں کے اشاروں پر ناچتے رہیں۔ ہماری تو سیاست سے لے کر ہر عمومی معاملے تک اپنی ایک پختہ سوچ ہے، جس پر کسی کی رائے نہیں، خود ہماری ہی فکراثر انداز ہوسکتی ہے۔

  • مَیں ناول ’’عبداللہ‘‘ کا اسیر ہوگیا ہوں۔ یقین کریں، اسی کی خاطر ہر اتوار کا شدّت سے انتظار رہنے لگا ہے۔ بس، ایک التماس ہے، مجھ سے ساتویں قسط مِس ہوگئی ہے، اگر آپ وہ ای میل پر شیئر کردیں، تو بے حد ممنون رہوں گا۔ (عبداللہ انس، لندن، برطانیہ)

ج: ساتویں قسط آپ کی ای میل آئی ڈی پر بھیج دی ہے۔ اور یقیناً آپ کو مل بھی گئی ہے کہ آپ کی ’’بہت شُکریہ‘‘ کی ای میل بھی وصول پائی۔ (چلیں، کوئی بات نہیں، بڑے بڑے شہروں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں)۔

قارئین کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین