پاکستان میں پیدا ہونے والی اقرا خالد نے اکتوبر میں ہونے والے کینیڈا کے عام انتخابات میں دوسری مرتبہ اکثریت حاصل کر کے پارلیمنٹ میں اپنی نشست برقرار رکھی ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی لبرل پارٹی سے تعلق رکھنے والی اقرا خالد نے پہلی مرتبہ 2015 میں کینیڈا کے دارالعوام کا انتخاب جیت کر سب کوحیران کردیا تھا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اقرا خالدکو انصاف اور انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کا ممبر نامزد کیا گیا جس کے دوران انہوں نے جنوبی ایشیا میں انسانی سمگلنگ، میانمار میں روہنگیا بحران اور چین، عراق اور ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کر کے عالمی توجہ حاصل کی تھی اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے منظم نسل پرستی اور مذہبی تفریق کے خلاف ایک تحریک پیش کی جس کے پارلیمنٹ سے منظور ہونے کے بعد حکومت اب نسل پرستی اور مذہبی تفریق کے خلاف اقدامات اُٹھانے کی پابند ہے۔
اس دوران اقرا خالد کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں ، اُن کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے۔
بہاولپور سے کینیڈین پارلیمان تک کا سفر:
اقرا خالد نے برطانوی میڈیا کو بتایا کہ میں نے صوبہ پنجاب کے شہر بہاولپور کے ایک متوسط خاندان میں آنکھ کھولی۔ میرے والد ایک مقامی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ میرے والد کوجب پی ایچ ڈی کے لیے برطانیہ جانا پڑا تو وہ ہم سب بچوں کو بھی ساتھ برطانیہ لے گئے۔ برطانیہ میں تین سال رہنے کے بعد جب میں 11 سال کی تھی تو ہم واپس پاکستان آئے۔
پاکستان میں ایک سال گزارنے کے بعد والدین نے محسوس کیا کہ اب ہمارے بچے پاکستان کے نظام تعلیم سے زیادہ ہم آہنگ نہیں ہو رہے چنانچہ والد نے کینیڈا کے لیے اپلائی کردیا۔
1998 میں، میں جب 12 سال کی تھی تو کینیڈا چلی گئی۔ مجھے بچپن ہی سے کینیڈا میں ایڈجسٹ ہونے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ اسکول جاتی تو میرا بہت زیادہ وقت لائبریری میں گزرتا۔ جب اسکول میں تھی تو اسکول کا اخبار بنایا کرتی تھی۔بچپن میں صحافی بننے کا شوق تھا مگر بعد میں امریکا سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔
ملازمت اور کاروبار:
میں 16 سال کی تھی جب تعلیم کے دوران ایک آن لائن اسٹور پر ملازمت کی۔ یہ میری پہلی ملازمت تھی مگر یہاں تھوڑا عرصہ ہی کام کیا کیونکہ میری والدہ نے کپڑوں کا کچھ کام شروع کر رکھا تھا۔ انہوں نے مجھ سے مدد کا کہا تو پھر میں ان کے ساتھ کام کرنے لگی۔
جب ہمارے خاندان نے ایک کھانے کا کاروبار خریدنے کا فیصلہ کیا تو اس کے انتظامی اُمور سے لے کر کھانا پکانے تک اسے چلانے اور پھر مستحکم کرنے میں میرے مشورے اور کام کو بہت اہمیت دی گئی۔
یہ کاروبار اب بہت مستحکم ہے اور میرے والد ہمیشہ یہ ہیں کہ اس میں اقرا کا بہتبڑا کردار ہے۔امریکا سے وکالت کی ڈگری کے بعد مجھے کینیڈا کی ایک معروف قانونی فرم میں ملازمت مل گئی جہاں پر میری صلاحیتوں کو خوب سراہا گیا۔
میرا روز مرہ کا معمول تھا کہ میں دن کے وقت اپنی فرم میں کام کرتی تھی اور شام کے وقت ریسٹورنٹ چلی جاتی تھی ، وہاں والدین کا ہاتھ بٹاتی تھی اوراس طرح فلاحی کاموں میں بھی بھرپور حصہ لیتی تھی۔
یہ 2014 کی بات ہے جب کینیڈا کے 2015 انتخابات کی تیاریاں جاری تھیں اور سیاسی پارٹیوں میں نامزدگی کا مرحلہ شروع ہونے والا تھا۔ایک شام میں معمول کی طرح ریسٹورنٹ گئی تو میرے والد نے مجھے بلایا اور انتہائی سنجیدگی سے کہا کہ انتخابات ہونے والے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ تم میں بہت صلاحیت ہے اور تم سوشل ورک میں بھی حصہ لیتی ہوں، چلو نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں نے اپنی رضامندی ظاہر کر دی جس کے بعد میرے والد نے عملاً نامزدگی حاصل کرنے کی مہم چلا دی۔ ہمارے ریسٹورنٹ میں بہت لوگ آتے جاتے تھے اور یہ ہمارے رابطے کا بڑا ذریعہ بھی تھا۔میرے والد نے وہاں پر ہی اپنے دوستوں اور کمیونٹی کے لوگوں سے مشاورت شروع کر دی۔ جہاں کچھ لوگوں نے بہت سراہا جبکہ چند لوگوں نے مخالفت بھی کی۔
اس کے بعد اپنے دوستوں اورکمیونٹی کی میٹنگ منعقد کی جس میں سب سے مشاورت کے بعد نامزدگی کے لیے مہم شروع ہوئی۔ مہم کے دوران ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ مجھے نامزدگی مل جائے گئی اور ایسا ہی ہوا۔انتخابی مہم آسان نہیں تھی۔ میرا مقابلہ انتہائی تجربہ کار اُمیدوار سے تھا جو دو مرتبہ اس حلقے سے جیت چکے تھے۔
میں ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتی، لوگوں سے بات کرتی اور ان کو بتاتی کہ اگر وہ مجھے ووٹ دیں گے تو میں ان کے لیے کیا کروں گی۔
انتخابات سے تین دن قبل جب میں اپنی انتخابی مہم کے بعد اپنے مرکزی کیمپ میں گئی تو وہاں کا منظرمیں کبھی نہیں بھول سکتی۔میں نے دیکھا کہ ہر کمیونٹی کے سو، دو سو لوگ کیمپ میں بیٹھے انتخابات کے دن کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ لوگ تین، تین، چار چار کی ٹولیوں میں بیٹھے تھے اور ہر کوئی اپنے کام میں اتنا مگن تھا کہ کسی کو میری موجودگی کا احساس ہی نہیں ہوا۔
انتخابات کا دن اعصاب شکن تھا۔ میں پریشان تھی لیکن والد بہت مطمئن تھے۔ دن بہت ہی مصروف گزرا اور شام کو جب انتخابی کیمپ میں گئی تو بہت زیادہ لوگ اکھٹے تھے۔ ہمارے کارکنان پر اُمید تھے۔
اسی کیمپ میں میرے والد تمام معاملات سنبھال رہے تھے جبکہ میری والدہ ایک کونے میں موجود تھیں۔ میں بھی ان کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور نتائج کا انتظار کرنے لگی۔
جب مکمل نتیجہ سامنے آیا تو سب سے پہلے مجھ تک پہنچایا گیا، میں جیت گئی تھی۔ یہ ناقابل یقین تھا۔ میں خوشی سے چیخ ُاُٹھی۔ میری والدہ نے مجھے گرفت میں لے لیا۔ ان کی آنکھوں میں بھی خوشی کے آنسو تھے جبکہ پورے کیمپ میں خوشی کی لہر دوڑ چکی تھی۔
قتل کی دھمکیاں اور مظاہرے:
انتخابات کے بعد لبرل پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور جسٹن ٹروڈو وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ ہماری کامیابی اندازوں سے زیادہ تھی۔ حکومت کو اپنے وعدوں کے بعد کام کرنا تھا اور مجھے یہ ثابت کرنا تھا کہ میں وہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں جس کے لیے مجھے ووٹ دیے گئے ہیں۔
کینیڈا میں مختلف قوموں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں اور یہاں قومیت اور مذہبی بنیادوں پر کوئی تفریق نہیں ہے۔ میں نے اپنے پہلے دور میں محسوس کیا کہ نفرتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔چنانچہ اسلامو فوبیا کے خلاف تحریک تیار کروائی اور اس کو جب اسمبلی میں پیش کیا تو اس پر بہت مشکلات پیش آئیں۔
اس تحریک کے پیش ہوتے ہی میرے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے اور مجھے قتل کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ چند لوگ اکھٹے ہوتے اور میرے گھر کے باہر مظاہرے شروع کردیتے، میں جہاں جاتی لوگ مظاہرہ شروع کر دیتے۔
قتل کی دھمکیاں تو اتنی ملتیں کہ میں نے توجہ دینا ہی چھوڑ دی۔ تحریک پیش کرنے اور پھر منظور ہونے میں تھوڑا عرصہ تھا۔ حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ ہر وقت اپنے ساتھ پولیس رکھوں مگر میں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا تاہم عوامی مقامات پر مجھے پولیس سکیورٹی ملتی تھی۔
دوسرا الیکشن مشکل نہیں تھا
میرے لیے دوسرا الیکشن مشکل نہیں تھا۔ میں اپنے حلقے میں عوام کے ساتھ مکمل رابطے میں تھی۔ دوبارہ نامزدگی حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ حلقے کے عوام خود ہی مہم چلار ہے تھے۔پہلا انتخاب میں نے تقریباً چھ ہزار کی برتری سے جیتا تھا اور حالیہ الیکشن تقریباً نو ہزار کی برتری سے جیتا ہے، جس سے واضح ہے کہ میرے حلقے کے عوام میرے ساتھ ہیں۔
اب نئے انتخابات کے بعد میرا کردار کیا ہو گا، یہ میری پارٹی طے کرے گی۔ مگر اب میں تجربہ کار ہوں۔ میں اپنے حلقے کے عوام سے کیے گئے وعدے پورے اور اپنے ملک کینیڈا کی ترقی کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے پر عزم ہوں۔
چونکہ میرا پس منظر جنوبی ایشیائی ہے، اس لیے ان ممالک کی ترقی کے لیے بھی اپنا کردار کرنے کی کوشش کروں گی اور پاکستان میں میرا گھر اور میرے رشتہ دار ہیں، اس لیے اگر پاکستان کی ترقی کے لیے کوئی کردار ادا کرسکوں تو بہت خوشی ہو گی۔