سیاسی شوروغل میں نہ کسی کو کوئی منطقی بات سوجھتی ہے اور نہ ہی اس کو سنا جاتا ہے۔ پاکستانی زندگی کے ہر پہلو، بالخصوص معاشیات، کو سیاسی پارٹیوں کے حوالے سے ہی دیکھتے ہیں اور میڈیا میں لکھنے والوں کا بھی یہی رویہ ہے۔
سیاسی سطح پر تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے اگرچہ عنوان بتا رہے ہیں کہ موجودہ حکمران ٹولے کا چل چلاؤ کا عمل شروع ہو چکا ہے لیکن ان کی جگہ لینے والوں کا تعین ہونا باقی ہے لیکن بہت ہی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کی زندگی کے اہم ترین شعبے یعنی معیشت کو راہِ راست پر لانا ہر کسی کے بس سے باہر نظر آرہا ہے۔
اگرچہ معاشی بدحالی کا سارا ملبہ عمران خان کی ایک سالہ حکومت پر ڈالا جا رہا ہے لیکن ایسا ہے نہیں کیونکہ اگر پچھلی حکومتیں معیشت کی بنیادیں مضبوط بنا دیتیں تو احمقانہ پالیسیاں بھی اتنی جلد تباہی نہیں مچا سکتی تھیں۔ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کئی دہائیوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔معیشت دانوں کا محبوب استعارہ بلبلے کا بننا اور پھٹنا ہے۔
اس سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک مارکیٹ میں سٹے بازی کے ذریعے قیمتیں آسمان پر پہنچ جاتی ہیں اور پھر ایک دم وہ دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ رئیل اسٹیٹ، اسٹاک، سونے اور تیل کی مارکیٹ میں ہو چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں پچھلے ایک سال میں جو کچھ ہوا ہے وہ بلبلا پھٹا ہے یا بم۔
پاکستان کی معیشت کا بلبلا تو 1980کی دہائی سے بنناشروع ہو چکا تھا لیکن اس کی واضح شکل 1999کے بعد مشرف دور میں سامنے آئی۔ مشرف کے پورے دور میں شوکت عزیز کی بنائی ہوئی معاشی پالیسیوں کا بنیادی ہدف اشیاء کی طلب یا صارفین کو نئی چیزوں کے خریدنے کی طرف مائل کرنا تھا۔ اس کا ایک دوسرا بنیادی مقصد بینکاری نظام میں شرح منافع کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا تھا۔
خوش قسمتی یا بدقسمتی سے وہ ان دونوں مقاصد میں کامیاب ہوئے۔ ایک طرف تو صارفین نے بینکوں سے قرضہ جات اور قسطوں پر دھڑا دھڑ واشنگ مشینوں سے لے کر کاروں تک کی خریداری آسمان تک پہنچا دی تو دوسری طرف اس عمل میں بینکوں کے بھی وارے نیارے ہو گئے۔
اس سے پہلے پاکستان میں اشیاء کی طلب بڑھنے کی وجہ مزدور تارکین وطن کی بھیجی ہوئی رقومات، منشیات کی اسمگلنگ کے ذریعے بنایا ہوا پیسہ اور افغان جنگ میں امریکیوں اور عرب شیوخ کا بانٹا ہوا ڈالروں کا انبار تھا۔ ان سب ذرائع کی بنا پر نہ صرف صارفین کے استعمال کی چیزوں میں اضافہ ہوا تھا بلکہ ان کے لئے ضروری وسائل تیل اور بجلی کی مانگ بھی بڑھ گئی تھیں۔
اسی لئے بینظیر بھٹو نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بجلی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا اور شریف برادران نے نقل و حمل کے انفرا اسٹرکچر کو کافی بہتر بنا دیا۔
مشرف دور میں شوکت عزیز کی بنائی ہوئی معاشی پالیسیوں کی بنیادی ناکامی یہ تھی کہ اشیا کی مانگ کی تو فراوانی ہو گئی لیکن اس کے لئے دوسرے لوازمات کو سرے سے ہی نظرانداز کر دیا گیا۔ مشرف کے دور سے پہلے بجلی اتنی فراواں تھی کہ پاکستان ہندوستان کو بجلی فراہم کرنے کی پیشکش کر رہا تھا لیکن وہ نئی صدی کی پہلی دہائی کے اندر اندر اتنی کم پڑ گئی کہ طویل لوڈشیڈنگ روز مرہ کا معمول بن گیا۔
یہ سب کچھ شوکت عزیز کی پالیسیوں کا مہلک نتیجہ تھا۔ وہ وقتی طور پر تو قومی آمدنی میں بڑا اضافہ دکھانے میں کامیاب ہو گئے لیکن طویل المیعاد میں وہ ملک کو ایسے بھنور میں چھوڑ گئے (گردشی قرضوں کی وبا) کہ اس سے آج تک نکلا نہیں جا سکا۔
ان سب سلسلوں سے ماورا دو طرح کے دوسرے پہلو بھی قابلِ غور ہیں۔ پہلا تو یہ کہ 1980کے بعد سے اشیائے صرف کی تو مانگ بڑھتی گئی لیکن صنعتی پیداوار میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ ظاہر بات ہے کہ نتیجتاً بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لئے درآمدات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
دوسری بڑی ناکامی یہ تھی کہ ملک میں دولت تو مسلسل بڑھتی گئی لیکن ٹیکسوں سے محاصلات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا چنانچہ بڑھتی ہوئی دفاعی ضرورتوں، انتظامیہ کے اخراجات اور خسارے میں جانے والے شعبوں (زراعت، اسٹیل مل، پی آئی اے) کو سبسڈی دینے کے لئے حکومتی قرضہ جات بڑھتے گئے: اب ان قرضہ جات کا سود ہی بجٹ کا بہت بڑا حصہ ہضم کر لیتا ہے۔ بجلی وغیرہ کی سپلائی بڑھانے کے لئے جو الٹے سیدھے طریقے اپنائے گئے اس کے لئے بھی قرضہ جات میں بہت اضافہ ہوا۔ غرضیکہ صورت حال اس طرح سے ہو گئی:
٭ ملک میں اشیائے صرف کی مانگ بڑھتی گئی اور پیداواری صلاحیت میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ اس کے نتیجے میں بیرونی خسارہ بھی بلبلے کی شکل اختیار کرگیا۔
٭ٹیکسوں کی نا دہندگی وجہ سے حکومتی قرضے کا بم بھی کا فی طاقتور ہوتا گیا۔ اسٹیٹ بینک نوٹ چھاپ چھاپ کر حکومت کو قرضے دلواتا رہا اور افراطِ زر میں اضافہ کا باعث بنتا رہا۔
٭ان سب کو یکجا کر کے دیکھا جائے تو ملک کی کسی ایک منڈی میں ہی صرف بلبلا نہیں بنا بلکہ پوری معیشت ایک طاقتور بم کی شکل اختیار کر گئی تھی جس کو ایک دن پھٹنا ہی تھا۔
تیس چالیس برسوں میں بننے والا معاشی بم پھٹ چکا ہے اور اس کی پھیلائی تباہی کو سمیٹنے والے ناپید ہیں۔
موجودہ حکومت کو تو یہ پیچیدگیاں سمجھ میں بھی نہیں آ سکتیں وہ اس کا مداوا کیا کریں گے لیکن پھٹے ہوئے بم نے معیشت کی بنیادوں کو اس طرح تہ و بالا کردیا ہے کہ کسی صاحبِ بصیرت کے لئے بھی اسے بحال کرنا دہائیوں کا عمل ہوگا۔