• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنرل باجوہ کے کیس میں حکومتی قانونی ماہرین کی نااہلی عیاں ہوگئی

اسلام آباد (طارق بٹ) آرمی چیف کی اس منصب پر دوبارہ تقرری/ مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے میں حکومتی قانونی ماہرین کے کام نے ان کی نااہلی کو گہرا کردیا۔ ان کی غیر سنجیدگی بھی عیاں ہوکر سامنے آگئی اس بارے میں انہوں نے سپریم کورٹ کو مطمئن کرنے کے لئے جو کچھ پیش کیا، اس میں حکومت کو شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور وہ مطلوبہ مقاصد کے حصول میں ناکام رہی۔ وفاقی کابینہ کے منگل کو دو اجلاسوں میں جوڈیشنل آرڈر میں اٹھائے گئے سوالات کےجواب میں حکومت نے عجلت میں جو کچھ پیش کیا، اسے مسترد کرتے ہوئے تین رکنی بنچ کے سربراہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل انور منصور خان سے کہا کہ عدالت مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لئے حکومت کو مزید ایک دن دیتی ہے۔ اب بھی وقت ہے حکومت پیچھے ہٹے اور جو کچھ کررہی ہے اس کا جائزہ لے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کو ایک اعلیٰ افسر کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ آرمی چیف کی تقرری ایسے کی گئی جیسے اسسٹنٹ کمشنر لگایا جاتا ہے۔ آرمی چیف کو شٹل کاک بنا دیا گیا ہے۔ وزارت قانون یا کوئی بھی حکومتی اعلیٰ افسر بآسانی ایک سادہ سا نوٹیفکیشن تیار کرسکتا ہے۔ لگتا ہے کہیں نہ کہیں کوئی مسئلہ ہے جس نے سرکاری موقف کو پیچیدہ بنا دیا، عدالت نے دو واضح لیکن بے ڈھنگی مثالوں کی نشاندہی کی۔ جب سوچے سمجھے بغیر انتہائی حساس معاملے سے نمٹا گیا۔ ایک تو یہ کہ وزیراعظم عمران خان نے صدر عارف علوی کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی دوبارہ تقرری کا مشورہ دیا لیکن نوٹیفکیشن مدت ملازمت میں توسیع کا جاری کیا گیا۔ دوسرے ریگولیشن 255- میں حکومت نے ترمیم کرکے حکومت نے موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا لفظ ڈالا۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ اٹارنی جنرل، سابق وزیرقانون فروغ نسیم، معروف وکیل بابر اعوان اور دیگر کو وزیراعظم نے مشاورت کے لئے فوری طلب کیا تاکہ عدالت عظمیٰ کے اطمینان میں کوئی حل نکالیں۔ تیز اور پرجوش بحث کو سمیٹتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حکومت کو پوچھے گئے سوالات کے جوابات آج جمعرات کو دینے کے لئے کہا کہ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع یا دوبارہ تقرری کی کیا وجہ بنی؟ اس کے لئے کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا؟ حکومت کی قانونی پوزیشن کیا ہے؟ ایک اور سوال جو مقدمے کی سماعت میں حاوی رہا کہ آیا کسی ریٹائرڈ فوجی افسر کو آرمی چیف لگایا جاسکتا ہے؟ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آرمی چیف کی معیاد کا معاملہ نہایت اہم ہے ۔ ماضی میں پانچ یا چھ جنرلوں کو توسیع دی گئی۔ ہم اس معاملے کا قریب سے جائزہ لیں گے تاکہ آئندہ اس کا اعادہ نہ ہو۔ اس انتہائی اہم معاملے میں آئین خاموش ہے۔ یہ معاملہ مدت ملازمت میں توسیع یا دوبارہ تقرری کا ہے۔ اٹارنی جنرل نے صاف صاف کہہ دیا کہ عدالت قانون کے معاملے میں سخت رویہ اختیار نہ کرے۔ چھڑی کو موڑیں گے تو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ پہلے قانونی دلائل پیش کریں۔ جب انور منصور نے عدالت کو فوجی افسران کا حلف نامہ پڑھ کر سنایا تو چیف جسٹس نے کہا حلف میں مزید یہ بھی لکھا ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر ملک و قوم کے لئے جانیں قربان کردیں گے اور کبھی کسی سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں ہوں گے۔ دریں اثناء سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف 2016 میں پاناما پیپرز کیس کے بعد آج پوری قوم کی نگاہیں مذکورہ کیس پر لگی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی فورم پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت یا توسیع کا معاملہ زیرسماعت ہے۔ تین فوجی حکمرانوں ایوب خان، ضیاءالحق اور پرویز مشرف مارشل لاء لگا کر ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے اپنی مدت ملازمت میں اوسطاً دس سال توسیع کرتے رہے، جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں مزید تین سال پیپلز پارٹی کی حکومت نے توسیع دی۔ فوجی سربراہوں کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ اس سے قبل عدالت عظمیٰ میں کبھی زیرغور نہیں آیا کیونکہ یہ وہاں اٹھایا ہی نہیں گیا تھا۔

تازہ ترین