تفہیم المسائل
سوال:ہمارے ہاں ایک قدیم قبرستان ہے ،جس کے بارے میں یہ نہیں معلوم کہ یہ کس نے وقف کیا ہے ، اس میں پرانے ،خشک درخت بھی ہیں اور سبز درخت بھی ۔گاؤں کے بعض لوگ متفقہ طور پر کچھ درخت کاٹ کر اس کی رقم علاقے کی مساجد پر صرف کرتے ہیں ،کبھی مسجد کا پانی گرم کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں ، کبھی وہ لکڑیاں کسی غریب مستحق کو دے دیتے ہیں،کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟ اسی طرح اگر کسی شخص نے اپنی ملکیتی زمین قبرستان کے لیے وقف کی تو اس کے درختوں سے اس کی ملکیت ختم ہوجاتی ہے یا نہیں ؟ ،(تاج محمد )
جواب:صورتِ مسئولہ میں مذکورہ قبرستان قدیم ہے اور اس کے واقف (وقف کرنے والے)کا بھی کچھ حال معلوم نہیں ،تو اس میں موجود درختوں کو قبرستان کی مِلک اور وقف شمار کیاجائے گا اور اس سے حاصل آمدنی قبرستان پر ہی صرف کی جائے گی ۔علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں:’’ قبرستان میں بڑے بڑے درخت لگے ہوئے ہیں ،اس کی دو صورتیں بنتی ہیں: ایک صورت یہ ہے کہ وہ درخت زمین کو قبرستان کے لیے وقف کرنے سے پہلے اُگے ہوئے ہیں، دوسری صورت یہ کہ قبرستان بنانے کے بعد اُگ آئے ہیں ۔صورتِ اول کی دو قسمیں ہیں : قسمِ اول کہ اس زمین کا کوئی مالک تھا ،قسمِ دوم : زمین غیر آباد تھی اور اس کا کوئی مالک نہ تھا اور گاؤں والوں نے اسے قبرستان بنادیا ۔پس قسمِ اول میں یہ درخت جڑوں سمیت اس زمین کے مالک کی مِلک ہیں ،ان درختوں کاجو چاہے کرے اور قسمِ ثانی میں درخت اپنی جڑوں سمیت قدیم حال پر رہیں گے ۔
صورتِ ثانی میں بھی مسئلے کی دو قسم ہیں : اول یہ کہ ان درختوں کا لگانے والا معلوم ہے ، دوسری یہ کہ لگانے والا معلوم نہیں ہے ،قسمِ اول میں درخت لگانے والے کی مِلک ہوں گے اور قسمِ ثانی میں اس کا حکم قاضی کے اختیار میں ہے ،اگر اس کی رائے یہ ہے کہ ا ن درختوں کوفروخت کرکے اُن کے دام قبرستان کے مصالح پر صرف کیے جائیں تووہ ایساحکم دے سکتاہے ،’’ واقعات حسامیہ‘‘ میں اسی طرح ہیں ،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد4،ص:473)‘‘۔قبرستان کے مصالح میں سے یہ بھی ہے کہ قبروں کے درمیان راستہ صاف ستھرا ہو کہ آنے جانے والوں کے لیے آسانی ہو ،بقدرِ ضرورت روشنی کا انتظام ہوکہ رات کو تدفین یا اپنی اَموات کی قبور پر فاتحہ پڑھنے کے لیے آسانی ہو۔آپ کا دوسرا سوال یہ ہے :’’ کسی شخص نے اپنی ملکیتی زمین قبرستان کے لیے وقف کی تو اس کے درختوں سے اس کی ملکیت ختم ہوجاتی ہے یا نہیں ؟،تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقف شدہ زمین میں موجود درختوں کا مالک وہ واقف (وقف کرنے والے)ہے اور اس کے بعد اُس کے ورثاء مالک ہیں ،جیساچاہیں ،اُس میں تصرُّف کریں،علامہ حسن بن منصور الاوزجندیؒ لکھتے ہیں:’’ کسی شخص نے قبروں کے لیے زمین وقف کی اور اس زمین میں بڑے بڑے درخت ہیں، فقیہ ابو جعفر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: درخت اس وقف میں داخل نہیں ، واقف کی مِلک ہیں،اگر وہ فوت ہوگیا تو اس کے ورثاء کی مِلک ہیں ،(فتاویٰ خانیہ ،جلد3،ص:313)‘‘۔