• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طلبہ تنظیموں کی بحالی کیلئے جمعہ کے روز طالبعلموں، سیاسی کارکنوں، وکلا اور سول سوسائٹی سے متعلق جملہ افراد نے مل کر وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے مختلف شہروں میں مظاہرے کئے۔ مظاہرین یونیورسٹیوں کی فیسوں میں اضافے اور ٹرانسپورٹ کی سہولت کے فقدان کے خلاف بھی نعرے لگا رہے تھے۔ تاہم ان مظاہروں میں کسی قسم کا منفی پہلو سامنے نہیں آیا۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر ان کے مطالبات درج تھے۔ اس نوعیت کے مظاہرے قانون توڑنے کی ذیل میں نہیں آتے بلکہ تعلیمی اداروں میں صحتمند سرگرمیوں اور تعمیری ماحول پیدا کرنے کی طرف ایک قدم ثابت ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں بھی طلبہ یونینوں کے پلیٹ فارم سے نوجوانوں میں مثبت اور تعمیری سرگرمیاں اور اقدار فروغ پاتی رہی ہیں۔ پارلیمان میں طلبہ کے اس دیرینہ مطالبے پر غور و فکر ہونا چاہئے۔ دراصل طلبہ تنظیموں پر متذکرہ پابندی 1980کے عشرے میں اس وقت لگائی گئی تھی جب سیاسی جماعتوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے ان پر اپنی چھاپ لگائی اور اس کے نتیجے میں طلبہ تنظیمیں مسلح ہو کر ایک دوسرے کے سامنے آنے لگیں لیکن شہروں کے انتظامی حلقوں نے جان چھڑانے کے لئے حکومت کو ان پر پابندی لگانے کا مشورہ دیا۔ دنیا بھر میں طلبہ تنظیمیں نہایت موثر انداز میں موجود ہیں جن کیلئے حکومتوں نے ضوابط اخلاق بنا رکھے ہیں اور ان پر موثر طور پر عمل درآمد ہوتا ہے۔ اس حوالے سے حکمران جماعت پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بھی بجا طور پر طلبہ تنظیموں کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پر پابندی جمہوریت کے منافی ہے اور ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ یہ تنظیمیں تشدد سے دور رہیں جس کیلئے قواعد و ضوابط ہونے چاہئیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین