• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں اگر کمبل میں ایک ’جوں‘ ہو جائے تو اس کیلئے پورے کمبل کو نہیں جلایا جاتا، ہمارے ہاں مگر نفسیات یہ بن گئی ہے کہ کسی بھی ایک خامی، غلطی یا واقعہ کی بنیاد پر یہ خواہش بن جاتی ہے کہ اب انقلاب کا بگل بجا ہی دیا جائے۔ ہم غریب غربا ابھی ابھی آزادی مارچ اور جناب نواز شریف کی بیماری پر سیاست جیسے ایشوز سے فارغ ہوکر اپنے اپنے روزگار میں لگ چکے تھے کہ یار لوگوں نے ایک عدالتی کارروائی کو اُسی طرح تختہ مشق بنا دیا جس طرح کہ ہمارے ہاں ہر معاملے کو بنایا جاتا ہے۔ 

عوام فیصلے تک ہمہ تن گوش رہے کہ دیکھئے کب نقارۂ انقلاب سماعت سے ٹکڑا جائے۔ حالانکہ عدالت عظمیٰ نے آرمی چیف سے متعلق قانون میں بنیادی جھول اور اس بابت حکومت کی نااہلی پر سوال اُٹھاتے ہوئے اس غرض سے سماعت شروع کی تھی کہ اُس کو کیسے حل کیا جائے۔ 

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ آزادی مارچ کے دوران ہم نے ایک بزرگ سے استفسار کیا کہ حضرت کیا ہونے جا رہا ہے، گویا ہوئے ’’مرغی اذان دینے کی کوشش کر رہی ہے‘‘ میں نے کہا حضرت ایک تو ہمارے مولانا صاحبان ماشاء اللہ صحت مند ہیں، پھر آپ نے انہیں مونث بھی بنا دیا، سر پکڑ کر بیٹھ گئے، کہنے لگے کہ اس کہے میں وہ جہاں پوشیدہ ہے جو تمہاری کج فہمی میں بھلا کیسے سما سکتا ہے۔ 

خیر ہم یہاں کہنا یہ چاہتے ہیں کہ مملکت درحقیقت جن نازک مسائل سے دوچار ہے اُس میں جذباتیت سے کہیں زیادہ اُس سنجیدگی کی ضرورت ہے جو بحیثیت مجموعی یہاں سے جیسے رخصت ہو گئی ہو۔ ایسے عالم میں توسیع سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ انتہائی معتدل ہے، اس سے پاکستان کے سیاسی نظام پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ 

آرمی چیف کی توسیع یا دوبارہ تقرری کے حوالے سے واضح قوانین نہ ہونے کے باوجود حکومتیں جس طرح توسیع دیتی رہی ہیں، اس فیصلے سے ہر و خاص تک یہ بات پہنچ گئی ہے کہ کس طرح بالائے قوانین ایک پریکٹس ہوتی رہی، یہ احساس تک نہیں ہوسکا کہ جو کیا جا رہا ہے، قانون اس حوالے سے موجود بھی ہے یا نہیں۔ 

بنابریں اب اس دانشمندانہ فیصلے سے اس بابت واضح قوانین بنانا تاریخی پیش رفت ہوگی۔ قانونی طور پر طے ہونے سے اس حوالے سے دبائو وغیرہ کے تاثر کا بھی خاتمہ ہو سکے گا۔ دوسری طرف حکومت نے توسیع کے معاملے پر پے درپے غلطیاں کرکے اپنی نااہلی کا اظہار آپ کیا، اس کو جہاں مخالفین نے خوب کیش کیا، وہاں عدالت عظمیٰ کو بھی بار بار سرزنش کرنا پڑی، بقول عبدالحمید عدم؎

ہاتھ رکھتےہی نبض پر میری

کس قدر مضطرب طبیب ہوا

تاریخ یہ ہے کہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا بھارت اگلے سال ہی آئین پر عمل پیرا ہوا اور مکمل دستور 26جنوری 1950ء کو نافذ کیا۔ دوسرا تاریخی قدم یہ اُٹھایا گیا کہ بھارت کے حصے میں آئی ہوئی 562ریاستیں ختم اور جاگیردارانہ سماج پر کاری ضرب لگا دی گئی۔

دوسری طرف پاکستان میں نہ صرف یہ کہ روز اول سے مسلم لیگی جاگیردار اقتدار پر قابض ہوگئے بلکہ 9سال تک یہ ملک سرزمین بے آئین رہا،1956میں بننے والے آئین کو بھی صرف 2سال 6ماہ بعد 7اکتوبر 1958ء کو مارشل لا لگاکر بوٹوں تلے روند دیا گیا، اس کے بعد جو کھلواڑ ہوا اور 1973کے آئین کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا، وہ پاکستان کی تاریخ کا مسخ باب ہے۔ 

ستم تو یہ بھی ہے کہ نہ صرف طالع آزمائوں نے آئین کو کاغذ کے چند ٹکڑوں سے ماسوا عزت نہ دی بلکہ سیاستدانوں نے بھی اسے بالائے طاق رکھ کر کاروبارِ مملکت میں محض گروہی و ذاتی مفاد پر توجہ دی۔ آمروں کو جواز حکمرانی فراہم کرنے کیلئے 8ویں اور 17ترمیم کرنے والوں نے بھی سیاستدانوں کا لبادہ اُوڑھ رکھا تھا اور ڈیمو کریسی میں لوٹا کریسی کو فروغ دینے اور ڈیل و ڈھیل کی سیاست والے عناصر نے بھی سیاستدانوں کا جامہ زیب تن رکھا۔ 

الغرض اس طرح جمہوری نظام میں متعدد ’بدعتوں‘ کی وجہ سے پاکستانی سیاستدان تاریخ کے مقروض ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے سیاستدان ویسے شاہین و شیر بنے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی قومی سمت کے تعین کا موقع ہاتھ آ جاتا ہے وہ کوے اور نجانے کیا بن جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے اُنہیں تاریخ کے جمع قرض میں سے کچھ ادا کرنے کا لاثانی موقع فراہم کر دیا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ یہ سیاستدان واضح، موثر اور قومی اُمنگوں کے مطابق قانون سازی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے کس طرح اپنے جوہر بروئے کار لاتے ہیں۔

تازہ ترین