17نومبر 2019کے جنگ اخبار میں میڈم ہیلتھ منسٹر ڈاکٹر یاسمین راشد نے ایم ٹی آئی کی حقیقتوں کو افسانوی انداز میں پیش کیا ہے اور مجوزہ ایکٹ کو تقریباً مقدس صحیفہ قرار دے دیا ہے۔ ڈاکٹر یاسمین بطور ڈاکٹر چالیس برس سے زیادہ کا تجربہ رکھتی ہیں اور ملک کے معروف میڈیکل کالجوں میں تدریس کا کام بھی کرتی رہی ہیں۔ آپ کی ساری زندگی PMAکی لیڈر کے طور پر گزری۔ اس زمانے میں YDAموجود نہیں تھی اِسی لئے ہڑتالوں، مظاہروں، دھرنوں اور روڈ بلاک کرنے کے ناخوشگوار فرائض میڈم کو ہی ادا کرنا پڑتے تھے۔ یہ ہیلتھ پروفیشن کی بدقسمتی ہے کہ اُن کے دورِ وزارت میں بھی پنجاب میں زیادہ تر ہڑتالیں اور مظاہرے ہی ہوتے رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ PTIکو ڈاکٹروں کی سو فیصد حمایت حاصل تھی اور عمران خاں کے شوکت خانم والے منصوبے سے لے کر گزشتہ الیکشن کمپین تک ڈاکٹر برادری اُن کے ہراول دستے میں شامل تھی اور جب پروفیسر صاحبہ کو پنجاب کی وزیر صحت بنایا گیا تو ہر طرف مسرت کی لہر دوڑ گئی اور یوں لگا کہ محکمہ صحت کے تمام دکھ درد دور ہونے کا وقت آ گیا لیکن افسوس کہ امیدوں کے شگوفے بن کھلے ہی مرجھا گئے۔ ڈاکٹر صاحبہ بھی ایک روایتی وزیر ثابت ہوئیں۔ آج سے چھ ماہ قبل اچانک اُن کے ہاتھ میں MTIکا ایکٹ آ گیا جسے لے کر وہ پنجاب اسمبلی میں گئیں اِس سے پہلے کہ وہ ڈسکس اور منظور ہوتا، میڈیکل پروفیشن کا زور دار احتجاج سامنے آ گیا اور تمام بڑے اسپتالوں میں مکمل ہڑتال ہو گئی۔ میڈم مجبوراً اِس ایکٹ کو لیکر اسمبلی ہال سے باہر آ گئیں اور ہڑتال ختم ہو گئی۔ پھر ایک دن اچانک اُنہوں نے گورنر پنجاب سے دستخط کروا کے مژدہ سنایا کہ ایکٹ موثر ہو گیا ہے جس سے ایک دفعہ پھر بے اطمینانی پھیل گئی۔ بجائے اِسی بے اطمینانی کو ختم کرنے کے ایک دفعہ پھر وہ آرڈیننس لے کر اسمبلی میں پہنچ گئیں۔ اِسی کے جواب میں ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف نے ایک متحدہ محاذ بنا کر پورے پنجاب کے بڑے اسپتالوں کے آئوٹ ڈور اور آپریشن تھیٹر بند کر دیے لیکن پنجاب حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔وہ تو خدا بھلا کرے جسٹس جواد صاحب کا کہ جنہوں نے موت کے کنویں کو بند کیا اور پورے 29دن بعد ملک کے سب سے بڑے صوبے کے تمام بڑے اسپتالوں میں دوبارہ کام شروع ہوا۔ یہ سب شاخسانہ تھا MTIکے نفاذ کا، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیا بلا ہے کہ جس کے آنے سے پہلے ہی ہلاکت و بربادی کا کھیل شروع ہو گیا۔ یہ ایکٹ وہی ہے جسے گزشتہ چھ سال سے کے پی میں نافذ کرنے کوشش کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں متضاد دعوے کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ اسپتال جنت نظیر بن چکے ہیں اور عمومی رائے اِس کے برعکس ہے۔ ہر روز وہاں کے اسپتالوں میں دنگے فساد ہو رہے ہیں، طویل ترین ہڑتالیں ہوئی ہیں، لاٹھی چارج ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور جیلیں اُن سے بھر دی گئی ہیں۔ یہ عجیب قانون ہے کہ جو چھ سال کے بعد بھی اپنی برکات نہیں منوا سکا۔ خیبر پختونخوا کے اسپتال سینئر ڈاکٹرز سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔
صوبہ پنجاب میں MTIایکٹ جسے قوانین ماضی میں آزمائے جا چکے ہیں۔ 1997میں شہباز شریف نے ٹرشری کیئر طبی اداروں کو خود مختار کرنے کے نام پر ایسا ہی تجربہ کیا تھا۔ اس نے اپنے منظورِ نظر جونیئر ڈاکٹرز کو اِداروں کا سربراہ اور اپنے سیاسی افراد کو بورڈ آف گورنرز کا ممبر اور چیف ایگزیکٹو لگا دیا اور تمام سینئر پروفیسروں اور پرنسپلوں کو اپنے خاص بندوں کے تابع کر دیا۔ جنہوں نے اِداروں میں جا کر وہ غل مچایا کہ خدا کی پناہ۔ جب پرویز مشرف نے میاں صاحبان کو رُخصت کیا تو اداروں کو سانس لینے کا موقع مل گیا، لیکن مشرف دور میں پروفیسر ڈاکٹر محمود چوہدری وزیر صحت بنے تو اٹانومی کے آئیڈیے کو دوبارہ نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اٹانومی ایکٹ MTIسے ملتا جلتا تھا اور پروفیسر محمود چوہدری کے دلائل موجودہ وزیر صحت کے دلائل سے ملتے جلتے تھے لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس وقت کی PMAکی لیڈر پروفیسر ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کمر کس کر کھڑی ہو گئیں اور انہوں نے محمود چوہدری کا ناطقہ بند کر دیا تھا، حق کی آواز بلند کرنے کی پاداش میں ڈاکٹر یاسمین کو محمود چوہدری کے غیظ و غضب کا نشانہ بننا پڑا اور اُنہیں پنڈی ٹرانسفر کر دیا گیا اور جب تک محمود چوہدری وزیر رہا، میڈم زیر عتاب رہیں لیکن سلام ہے میڈم کے پائے استقامت پر کہ جو کسی اسٹیج پر لرزا نہیں۔ میڈم نے بورڈز کو زہر قاتل قرار دیا لیکن آج پروفیشن حیران ہے کہ میڈم وزیر بن کر وہی بولی بول رہی ہیں جو محمود چوہدری بولا کرتا تھا۔ آج یہ MTIکو ہر زہر کا تریاق قرار دے رہی ہیں۔ حالانکہ وہ جانتی ہیں کہ محمود چوہدری کے حملے نے ہمارے طبی اداروں کو پچاس فیصد سے زیادہ کمزور کر دیا ہے آج پبلک سیکٹر زمین پر گرا پڑا ہے اور پرائیویٹ سیکٹر آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ MTIکے نام پر جو دھینگا مشتی شروع ہو چکی ہے یہ رہی سہی کسر بھی نکال دے گی اور گورنمنٹ سیکٹر کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔
ڈاکٹر صاحبہ اپنے مضمون میں فرماتی ہیں کہ انہوں نے MTIپر بہت زیادہ مشاورت کی ہے۔ اِسی سلسلے میں عرض ہے کہ میڈم M.Sصاحبان، پرنسپل صاحبان اور وائس چانسلرز کے ساتھ ہونے والی میٹنگوں کی مشاورت کا نام نہ دیں۔ میڈم بیشک MTIلے آئیں یا کچھ اور لیکن میڈیکل پروفیشن کا یہ اٹل فیصلہ ہے کہ وہ سیٹھ کی نوکری نہیں کرے گا، اپنے ریگولر سروس اسٹرکچر پر ہرگز آنچ نہیں آنے دے گا، ہم غریبوں پر بیڈ چارجز اور ٹیسٹ چارجز نہیں لگنے دیں گے۔ سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج غریبوں پر کوئی احسان نہیں، یہ حکومت کا فرض ہے اور جاری رہے گا۔ اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور ادویات کی عدم دستیابی اور عملے کی بدتمیزی کی ذمہ دار حکومت ہے کہ جس نے نااہل بھانجے بھتیجے اعلیٰ عہدوں پر فائز کر رکھے ہیں۔