• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدلیہ کی نیب کیخلاف چارج شیٹ بڑھتی جا رہی ہے

اسلام آباد (انصار عباسی) ایک نہیں، دو یا تین بار بھی نہیں بلکہ کئی مرتبہ ایسے کیسز سامنے آ رہے ہیں جن میں اعلیٰ عدلیہ نے صرف ایک سال میں یہ ہی دیکھا ہے کہ نیب کرپشن کے مقدمات بنانے میں غلطیاں کر رہا ہے اور کئی مہینوں اور برسوں تک لوگوں کو زیر حراست رکھے ہوئے ہے۔ 

تاہم، نظام میں پارلیمنٹ کی جانب سے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے درستگی نہیں کی جا رہی تاکہ معصوم افراد کو کرپشن اور بدعنوانی کے نام پر نشانہ بنائے جانے سے بچایا جاسکے۔ 

گزشتہ ایک سال کے اپنے فیصلوں میں سپریم کورٹ نے مختلف مقدمات میں نیب کے کام کرنے کے انداز پر سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں اور نیب اور اس کے احتساب کے طریقہ کار کیلئے ’’اختیارات کا من مانہ استعمال‘‘، ’’بدنیتی‘‘، ’’قیاس کرنا‘‘، ’’ان دیکھے خیالات‘‘، ’’صلاحیت کا فقدان‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کیے۔ 

تقریباً تمام کیسز میں سپریم کورٹ نے دیکھا کہ نیب کرپشن کے شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا لیکن اس کے باوجود ملزم کو گرفتار کیا گیا۔ 

تاہم، نیب کی رائے ہے کہ ادارہ قانون و قوائد کے مطابق کام کر رہا ہے اور کسی کو ہدف بنانے پر یقین نہیں رکھتا، اور کرپشن کیسز کو میرٹ کی بنیاد پر بلا خوف و خطر چلاتا ہے۔ 

کئی مرتبہ چیئرمین نیب اور ادارے کے ترجمان نے کہا ہے کہ ملک سے کرپشن کی لعنت کے خاتمے کے لیے بیورو کیسز کو دیکھتا ہے چہروں کو نہیں۔ لیکن سپریم کورٹ نے نہ صرف نیب کے تفتیش کاروں کی خراب سوجھ بوجھ کی نشاندہی کی ہے بلکہ چیئرمین نیب کے فیصلہ سازی پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ لیکن عدالتی فیصلوں میں نیب پر سخت لعنت ملامت کے باوجود درستگی کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے تاکہ بیورو کی غلط کاریوں سے معصوم افراد کو بچایا جا سکے۔ 

پنجمن (PUNJMIN) مائننگ کنٹریکٹ ریفرنس میں لاہور ہائی کورٹ نے حال ہی میں اُس وقت کے وزیر برائے مائنز اینڈ منرلز محمد سطبین خان کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ نیب نے 2013ء میں اس معاملے میں انکوائری بند کرکے بتایا تھا کہ قومی خزانے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا کیونکہ پنجاب حکومت نے ٹھیکہ منسوخ کر دیا تھا لیکن چیئرمین نیب نے انکوائری کیے بغیر ہی کیس ان افراد کیخلاف دوبارہ کھول دیا جن کیخلاف پہلے یہ کیس بند کیا گیا تھا۔ 

لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں نشاندہی کی کہ بیورو کی فیصلہ سازی میں سنگین خامیاں ہیں حتیٰ کہ اعلیٰ ترین سطح پر بھی غلطیاں کی جا رہی ہیں:… ’’لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ریکارڈ پر کوئی نئی بات سامنے نہیں لائی گئی اور کوئی نیا سچ کھود کر نہیں لایا گیا، لیکن ڈی جی نیب کے خط مورخہ 26؍ اپریل 2018ء کے تحت یہ انکوائری سابقہ الزامات پر کھولی گئی ہے۔ 

بظاہر، وجوہات اور حالات کے حوالے سے چیئرمین نیب کو آگاہ کیا گیا اور نہ ہی انہوں نے مواد کے مطابق اپنی رائے قائم کی۔ انہوں نے صرف انکوائری دوبارہ کھولنے کا حکم دے دیا اور نیب کے کسی افسر کو انکوائری بند کرنے کا ذمہ دار تک قرار نہیں دیا گیا۔ یہ ایسا نہیں ہے کہ صرف خواہشات کی بنا پر ہی بند کی گئی انکوائری کو پھوہڑ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوبارہ کھول دیا جائے۔ 

اگر وجوہات تھیں تو وہ پراسرار ہیں۔ یہ بات کہنے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ زبردست اختیارات کے ساتھ عظیم ذمہ داریاں جڑی ہوتی ہیں۔ چیئرمین نیب کے اختیارات قانون کے تحت بنائے گئے ہیں اور ضمیر کی بھی بات ہے لہٰذا ان کی رہنمائی کی جانا چاہئے نہ کہ ان دیکھے حالات اور اپنی پسند اور جانبدارانہ رویہ اور صوابدید اختیار کرتے ہوئے تصوراتی الزامات عائد کر دیے جائیں۔ 

استغاثہ نے درخواست گزار پر کسی طرح کی رشوت، کک بیکس، کمیشن یا مالی فوائد کے حصول یا قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد نہیں کیا۔‘‘ گزشتہ ہفتے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کے قائم کردہ ایل این جی ٹرمینل کیس کو کم و بیش پٹخ کر رکھ دیا جس میں اچھی ساکھ کے حامل تین افراد (سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور ایم ڈی پی ایس او عمران الحق) کو ملوث قرار دیا گیا ہے۔ 

عمران الحق کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں نیب کی نالائقی کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح صرف خیالات کی بنا پر مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں اور ایسے معاملات میں نیب میں تحقیقات کی صلاحیت نہیں ہے، قوانین کا من مانا استعمال کیا جا رہا ہے اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، جبکہ معیاری بین الاقوامی کاروباری روایات کو ملک کا اینٹی کرپشن کا ادارہ (نیب) کرپشن گردانتا ہے۔ 

اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ نیب نے ایل ین جی ٹرمینل کے نیلامی کے عمل میں قوائد کی خلاف ورزیوں کی کوئی نمایاں نشاندہی نہیں کی جبکہ بیورو کی جانب سے جن اعداد و شمار کی نشاندہی کی گئی ہے کہ قومی خزانے کو اتنا نقصان ہوا ہے وہ اعداد و شمار محض قیاس پر مبنی ہے۔ 

فیصلے میں بتایا گیا کہ درخواست گزار کیخلاف کرپشن کے ٹھوس شواہد نہیں لیکن صرف یہ نیب کی قیاس آرائی ہے کہ عمران الحق کا بطور ایم ڈی پی ایس او تقرر انہیں مبینہ طور پر فائدہ پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے۔ 

فیصلے میں عدالت نے لکھا ہے کہ ہم نے کئی کیسز میںیہ نوٹ کیا ہے کہ تحقیقات کرنے والے ماہرین تفتیش کار یا کان کن کے ماہرین نہیں۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ وائٹ کالر کرائم سے جڑے معاملات میں شاید ہی کبھی تربیت یافتہ ماہرین یا چارٹرڈ اکائونٹنٹس کی خدمات تحقیقات یا تفتیش کے دوران حاصل کی گئی ہوں۔ 

تفتیش کاروں کی پیشہ ورانہ قابلیت اور صلاحیت وائٹ کالر کرائم کے معاملے میں لاعلاج ہوگئی ہے۔ جس مقصد کیلئے نیب آرڈیننس نافذ کیا گیا تھا وہ صرف اسی صورت حاصل کیا جا سکتا ہے جب مبینہ جرم کی تحقیقات پیشہ ورانہ افراد کریں جنہیں وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کیلئے تربیت دی گئی ہو۔ موجودہ کیس اس بات کی واضح مثال ہے کہ ایک شہری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ 

ریکارڈ پر پیش کی جانے والی تحقیقاتی رپورٹس اور تحریری جوابات نیب کی وائٹ کالر کرائم میں تحقیقات کی صلاحیت کی پول کھولنے کے لیے کافی ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ا س تازہ ترین فیصلے سے قبل، شہباز شریف اور دیگر کیخلاف قائم کردہ صاف پانی پروجیکٹ، رمضان شوگر ملز اور آشیانہ ہائوسنگ اسکیم کے کرپشن کیسز میں بھی نیب کو سپریم کورٹ میں زبردست ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 

ان کیسز میں سے کم از کم دو میں، لاہور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ نیب نے بدنیتی سے کام لیا۔ تینوں مقدمات میں لاہور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ اختیارات کا ناجائز استعمال ہوا اور نہ ہی قانون و قوائد یا ضابطے کی کوئی خلاف ورزی۔ اس کی بجائے عدالت کا کہنا تھا کہ کوئی کک بیک، کرپشن، کمیشن یا غیر قانونی فائدہ حاصل نہیں کیا گیا۔ نیب نے تین مرتبہ وزیراعلیٰ منتخب ہونے والے اور ان کے بیورکریٹک مشیروں پر بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا تھا لیکن ادارہ کچھ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ 

صاف پانی اور رمضان شوگر کے معاملے میں لاہور کورٹ کا کہنا تھا کہ نیب نے بد نیتی کا مظاہرہ کیا۔ آشیانہ ہائوسنگ اسکیم اور رمضان شوگر ملز کیس میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر لاہور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور نہ ہی پروجیکٹ کے لیے مختص فنڈز میں خرد برد کی، غیر قانونی مالی فوائد، کک بیکس یا کمیشن بھی نہیں لی گئی۔ آشیانہ کیس میں عدالت کا کہنا تھا کہ سرکاری زمین کا ایک انچ بھی کسی کو نہیں دیا گیا۔ 

صاف پانی کیس میں انتظامیہ نے تقریباً 40؍ کروڑ روپے بچائے جبکہ رمضان شوگر ملز کیس میں عدالت کا کہنا تھا کہ نکاسی کا جو راستہ (ڈرین) رمضان شوگر ملز کے لیے بنایا گیا تھا وہ ’’پبلک ویلفیئر پروجیکٹ‘‘ تھا۔ 

آشیانہ کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے نیب کے دہرے معیارات کا بھانڈا پھوڑنے کیلئے پی ٹی آئی حکومت کی ہائوسنگ اسکیم کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ قابل ناقابل فہم ہے کہ نیب کیوں اس بات پر اصرار کر رہا ہے کہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی بجائے یہ پروجیکٹ سرکاری انداز سے آگے بڑھانا چاہئے تھا حالانکہ پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کا طریقہ کار بھی قانونی ہی ہے اور پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ ایکٹ 2014ء کے عین مطابق ہے۔ 

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موجودہ حکومت نے بھی 50؍ لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ اسی طرح (یعنی پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ) سے شروع کیا ہے اور اس پر تو نیب نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔

تازہ ترین