ہنسنا مسکرانا اچھی بات ہے اس سے دیکھنے والوں پر اچھا اثر پڑتا ہے بلکہ مسکرانے والے کی اپنی صحت میں بھی بہتری کے آثار پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔لیکن اس طرح ہنسنا کہ جس سے کسی کی دل آزاری ہو کسی بھی طرح کسی بھی مہذب معاشرے کی تہذیب کسی مذہب اور کسی سلجھے ہوئے ماحول میں پسندیدہ نہیں ہے۔ دنیا جاہلوں سے بھری پڑی ہے۔ اس میں ان پڑھ جاہل بھی ہیں اور پڑھے لکھے جاہلانہ طرز عمل اختیار کرنے والے بھی۔ کیونکہ اکثریت کو عقل و شعور ذرا کم ہی ہوتا ہے۔ قرآن حکیم اس کی گواہی دیتا ہے۔ (ولکن اکثر الناس لا یعقلون، ولکن اکثر الناس لا یشعرون) مگر بات ہو ری ہے سلجھے ہوئے انسانوں اور سلجھے ہوئے معاشروں کی۔ جہاں کسی کو حقارت سے دیکھر قہقہہ لگانا معیوب ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ بات اگر ثابت ہو جائے کہ یہ قہقہہ کسی کو حقیر سمجھ کر لگایا گیا ہے تو مہذب معاشروں میں اسے عدالت میں طلب کیا جاسکتا ہے۔ اور بالآخر اسے جیل کی ہوا کھانا پڑ سکتی ہے لیکن یہ مہذب معاشروں میں ہوتا۔ جمہوری اور غیر جمہوری ڈکٹیٹروں، بادشاہوں اور آمروں کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے بیمار ذہنیت کے بعض مسلمان معاشروں کی یہ خوش قسمتی کہاں کہ وہاں تضحیک کی بنیاد پر کسی کو قانون کے کٹہرے میں لایا جاسکے اور عدالت عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرے۔ پاکستان میں ایک قانون موجود ہے جس میں کوئی بھی شخص عدالت میں جاکر اپنی شخصیت کے متعلق غلط پروپیگنڈا کرنے والے کے خلاف دعویٰ کر سکتا ہے۔ اسے ”آزادنہ حیثیت عرفی“ کا قانون کہا جاتا ہے لیکن آپ نے اگر کبھی اس قانون کے تحت عدالت میں دعوی دائر کر دیا تو پھر آپ کو حضرت نوح علیہ السلام کی عمر کی دعا بھی کرنی چاہئے تاکہ آپ کی اپنی زندگی میں یہ کیس سنا جاسکے اور اس کا کوئی فیصلہ بھی آسکے۔ ورنہ ایسے کیس برسہابرس عدالتوں کی بوسیدہ فائلوں کے انبار میں پڑے رہتے ہیں اور وہ خوش قسمت دن بڑی مشکل سے طلوع ہوتا ہے جب اس کیس کی قسمت میں سنا جانا ہوتا ہے۔ ورنہ صورتحال فیض کے اس شعر کی عکاسی کرتی ہے:
تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تمسخر اڑانا، ٹھٹھہ مخول کرنا اور بڑی شخصیات اور قابل احترام افراد کو تضحیک اور استہزاء کا نشانہ بنانا جاہلوں کا معمول رہا ہے۔ اور چشم افلاک نے یہ منظر بارہا دیکھا ہے۔ نسل انسانی میں انبیاء کرام علیہ السلام سے بڑھ کر کون آزاد زیادہ معزز اور قابل تعظیم و احترام ہیں۔ لیکن قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے۔
(وما ارسلنا من رسول الاکانو یستہزوٴن)
اللہ تعالی کا کوئی ایسا رسول گرامی اس دنیا میں تشریف نہیں لایا جس کو تضحیک اور استہزاء کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ اللہ تعالی کے رسول گرامی تو لوگوں کی زبانوں سے نکلے ہوئے حقارت کے جذبات پر مشتمل لفظوں کے نشتر اور تیرسہتے اور برداشت کرتے رہے لیکن رب تعالی نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ”انا کفینک المستہزئین“ اے میرے پیغمبروں کا مذاق اڑانے والو تمہارا حساب چکانے تک میں کافی ہوں یعنی روز محشر قریب ہے اور جیسے ہی موت کا آہنی پنجہ تمہیں دبوچے گا اور تہماری سریے کی طرح سیدھی گردن ایک طرف کو ڈھلک جائیگی اور سارے پردے ہٹ جائیں گے اور تم رب تعالی کی سلطنت کی لامحدود وسعت، طاقت، ہیبت اور قدرت اپنی آنکھوں سے دیکھو گے اور پھر رب تعالی کے سامنے کھڑے کئے جاوٴ گے تو اس دن تم سے اس تضحیک اور استہزار کا حساب بھی لیا جائیگا۔ حضور ختم المرسلین رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد اب کسی نبی کسی رسول نے تشریف نہیں لانا۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی آسمان سے اتریں گے تو میرے آقا علیہ السلام کے امتی بن کر نبی بن کر نہیں۔ اب علماء ہیں جو حضور علیہ السلام کے علوم کے وارث ہیں۔ آج کل کے بدزبان، بدطینت اور بدنیت لوگ اور خاص طور پر وہ جاہل لوگ جا اپنے آپ کو مسلمان بھی کہلاتے ہیں اسی طبقہ علماء کو تضحیک واستہزاء کا نشانہ بناتے ہیں اور اپنے جیسے لوگوں سے داد تحسین پاتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد کی تاریخ دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کوئی ایسا دور نہیں گزرا جب طبقہ علماء کو تضحیک واستہزار کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ لفافے بانٹنے والے سیاستدان پورا ملک چٹ اور ہڑپ کر جائیں تو ان کے جرم سے آنکھیں پھیر لی جاتی ہیں۔ لیکن علماء کرام کے حلوے مانڈے کھانے کا ذکر تواتر کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جرنیل اور سیاستدان عیاشیوں اور بدکرداروں کی داستانیں بھی رقم کر دیں تو اپنے ان کے شب روز کے مشاغل سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ لیکن مولانا مفتی محمود نے شرعی طریقے سے سنت نبوی کے مطابق ایک دوشیزہ سے اسلامی نکاح کر لیا تو ہمارے میڈیا کو ان کی تضحیک کرنے کا موقع میسر آگیا۔ مولانا مودودی کا سر ایک مشہور رقاصہ کے دھڑ کے اوپر چپکا کر ایک ہفت روزہ نے سرورق پر اس خود ساختہ جھوٹی تصویر کے نیچے یہ شعر لکھ دیا ”سن وے بلوری اکھ والیا“ اور اس طرح پڑھے لکھنے والوں کو ایک مذہبی رہنما پر ہنسنے ، اس کی تضحیک کا سامان کرنے کا موقع مل گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو دور کے ایک وزیر سے میں نے خود مولانا شاہ احمد نورانی کا تذکرہ ان الفاظ کے تعارف کے ساتھ سنا ”قومی اتحاد کی ملکہ ترنم“ ماضی قریب میں قاضی حسین احمد کے انتخابی نعرے ”ظالمو قاضی آرہا ہے“ کے ساتھ جو تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا گیا اور ان کی شخصیت کا جس طرح تمسخر اڑایا گیا وہ ہمارے سامنے ہے آج کل علامہ ڈاکٹر طاہر القادری جس کی شخصیت اور ان کے سرپر سجا ہوا عمامہ شریف تضحیک و استہزاء کا نشانہ ہے۔ اسے ایک وزیر نے جاہلانہ انداز میں پوپ کی ٹوپی سے تشبیہ دی حالانکہ مصر و شام کے علماء اسی طرح عمامہ شریف پہنتے ہیں اس وزیر نے رومن کیتھولک عیسائیوں سے تو معذرت کر لی لیکن ایک عالم دین سے معذرت کرنے کی اخلاقی جرأت نہ ہوئی حالانکہ اس نے ایک عالم دین کی نہیں سنت رسول کی توہین کی ہے۔