مخدوم ضیاء الدین ٹھٹوی سندھ کے مشہور و معروف عالم دین، محدث اور سلسلۂ نقشبندیہ کے کامل بزرگ تھے۔ ان کا سلسلہ نسب عراق کے مشہور صوفی اور عالم شیخ شہاب الدین عمر سہروردی بغدادی (متوفی 632ھ) سے ملتا ہے۔ مخدوم ضیاء الدین کے اسلاف موضع وریاہ علاقہ جون میں رہتے تھے، جہاں سے مخدوم الیاس کے پوتے مخدوم ہارون نے نقل مکانی کر کے ٹھٹہ شہر میں رہائش اختیار کر لی۔ وہیں ان کے فرزند مخدوم ابراہیم پیدا ہوئے، جن کا شمار بڑے عالم اور صوفیوں میں ہوتا تھا۔
ان کے گھر میں 1091ھ میں مخدوم ضیاء الدین کی پیدائش ہوئی۔ مخدوم ضیاء الدین نے ٹھٹہ کے نامور عالم مخدوم عنایت اللہ ٹھٹوی سے تعلیم حاصل کی، انہی بزرگ سے مخدوم محمد معین ٹھٹوی نے بھی ظاہری علوم میں کسب فیض کیا اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی بھی آخری عمر میںا نہی کے شاگرد ہوئے۔ ایسے بڑے اور نامور عالم کے شاگرد مخدوم ضیاء الدین بھی ایک بڑے اور مشہور عالم ہوئے، جنہوں نے بعد میں اپنا ایک الگ مدرسہ قائم کیا، جہاں صدہا افراد ان سے فیضیاب ہوئے، جن میں مخدوم نعمت اللہ ٹھٹوی، میاں محمد ولد مخدوم احمد ٹھٹوی اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی شامل ہیں، جن کی عالمانہ اور محققانہ تصانیف کی تعداد تقریباً ایک سو پچیس کے قریب ہیں۔
مخدوم ضیاء الدین علوم ظاہری کے علاوہ باطنی علوم کے بھی امام تھے اور اس علم کی تکمیل کے لیے آپ نے سندھ کے مشہور عالم اور صوفی بزرگ مخدوم ابوالقاسم نقشبندی ٹھٹوی المعروف حضرت نقشبندی سے شرف بیعت حاصل کیا،ان ہی سے سلوک کی منازل طے کیں اور اس میں بھی کمال حاصل کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مخدوم آدم نقشبندی ٹھٹوی کے پوتے ابو المساکین خواجہ محمد ٹھٹوی (خواجہ محمد زماں لواری والے کے مرشد) کی صحبت میں بھی وقت گزارا اور آپ سے اکتساب فیض باطنی کیا۔ حضرت ابوالمساکین خواجہ محمد نے جب اپنی جگہ پر خواجہ محمد زماں لواری والے کو مسند آرا ئے رشد و ہدایت کیا تو مخدوم ضیاء الدین نے اسی ارادت اور عقیدت سے مخدوم محمد زماں سے بھی تعلق قائم رکھا اور وہ مخدوم محمد زماں کی خدمت میں باوجود اتنی علمیت اور مقام و مرتبہ کے بڑی حسن ارادت کے ساتھ حاضر ہوا کرتے تھے۔
اپنی تبحر علمی اور وقت کے بڑے بڑے علماء کے استاد ہونے کے باوجود آپ نہایت متواضع اوور منکسر المزاج تھے۔ غرور و تکبر، خود پسندی و خود نمائی کے بجائے فقر اور فروتنی ان کا شعار تھا۔ لوگ دور دراز سے مخدوم ضیاء الدین کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور شرعی مسائل پر فتوے زبانی یا تحریری حاصل کیا کرتے تھے۔ ایک روز ایک شخص نے ان کے شاگرد مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی سے ایک فتویٰ حاصل کیا اور اس کی تصدیق کی غرض سے دستخط کرانے کے لیےان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ان کی رائے چونکہ اس مسئلہ میں مخدوم محمد ہاشم کی رائے سے مختلف تھی اس لیے آپ نے اس پر دستخط کرنے سے انکارکردیا۔
مخدوم ضیاء الدین کو رات کو خواب میں حضور نبی اکرمؐ کی زیارت نصیب ہوئی۔حضور اکرمؐ مخدوم ضیاء الدین سے فرما رہے تھے کہ جس طرح محمد ہاشم کہہ رہا ہے تم بھی اسی پر فتویٰ دے دو۔ صبح اٹھتے ہی انہوں نے اسی سائل کو طلب کیا اور اس جواب پر اسی وقت دستخط فرما دئیے۔ اس کے بعد جو شخص بھی ان کے پاس فتویٰ حاصل کرنے کی غرض سے تشریف لاتا تو وہ اسے مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی کے پاس بھیج دیا کرتے اور فرماتے کہ فتویٰ کا کام اب ان کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔
مخدوم ضیاء الدین نے عام لوگوں کی سہولت کے لیے نماز، روزے اور زکوٰۃ کے مسائل کو سندھی شاعری کی صنف بیت میں ایک کتابی صورت میں تحریر کیا ہے، جسے مخدوم ’’ضیاء الدین کی سندھی‘‘ کہا جاتا ہے۔ مخدوم ضیاء الدین 80 برس کی عمر میں سن 1171ھ میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ ان کی اولاد میں سے میاں یار محمد ایک متقی اور صاحبِ فضیلت بزرگ ہوئے ہیں۔