• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یاد کریں کہ چار سال پہلے ہفتے میں کتنے دن پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالتوں کی کارروائی اخباروں کی سرخیاں بنتی تھیں؟ لیکن اب کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ سپریم کورٹ یا کوئی ہائیکورٹ شہ سرخیوں کا موضوع نہ ہو۔ قطع نظر اس کے کہ اعلیٰ عدلیہ سو فیصد راہ راست پر چل رہی ہے کہ نہیں یا اس کے کتنے فیصلوں پر عمل ہوتا ہے ایک بات واضح ہے کہ ملکی قوانین کا اطلاق پاکستانی سماج اور اس کے دانشور حلقوں کیلئے بنیادی موضوع بن چکا ہے۔ جس طرح یہ خاموش انقلاب پچھلے پانچ سالوں میں برپا ہوا ہے اسی طرح پاکستان کا سماجی نظام ہر پہلو سے ارتقاء کی منازل طے کر رہا ہے۔ اس عمل میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم کرنا غیر جمہوری سرجری ہوگی جس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
تاریخی ارتقاء نہایت پیچیدہ عمل ہے، اس کی رفتار اور اس کے ہاتھوں استعمال ہونے والے کرداروں یا ایجنٹوں کو آسانی سے نہ سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں پیشگوئی کی جا سکتی ہے، صرف اس کی عمومی سمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ارتقاء کو ہی لے لیجئے، کون کہہ سکتا تھا کہ پی سی او پر حلف لینے والے جسٹس افتخار محمد چوہدری ایک دن ارباب بست و کشاد کے خلاف بغاوت کر دیں گے؟ اور کون پیشگوئی کر سکتا تھا کہ سپریم کورٹ پر حملے میں ملزم مسلم لیگ (ن) اعلیٰ عدلیہ کی آزادی کی تحریک کی رہنمائی کرے گی؟ لیکن ایسا ہوا کیونکہ تاریخی ارتقاء میں افراد اور گروہ تبدیل ہوتے ہیں۔ یہ بھی طے شدہ امر ہے کہ تبدیلی لانے والے افراد اور گروہ گونا گوں تجربوں سے سیکھتے ہیں اور ان کے مفادات کی نوعیت بدل بھی جاتی جیسے مسلم لیگ (ن) کو الیکشن میں جیتنے کے لئے عدلیہ کی بحالی کا فائدہ تھا۔
باوجود افراتفری، فرقہ وارانہ خونریزی اور مختلف طرح کے مافیاوٴں کی لوٹ کھسوٹ کے ارتقائی عمل جاری ہے۔ اس کا واضح اشارہ آزاد عدلیہ کی تحریک کی عوامی مقبولیت سے تھا۔ اس وقت معطل چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے لئے جی ٹی روڈ پر جس طرح عوام قطار در قطار منتظر تھے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ چیف جسٹس کی تقریریں عوام کے لئے مجرد اور بے رنگ تھیں لیکن لوگوں کو وجدان تھا کہ قانون کی حکمرانی کیلئے آزاد عدلیہ کا ہونا بنیادی شرط ہے۔ اس تحریک میں درمیانے طبقے کے وکلاء نے بھی مثالی سرگرمی کا مظاہرہ کیا۔ مسلم لیگ (ن) اپنے تاریخی کردار کی بدولت درمیانے طبقے کی اس تحریک کا فوری ادراک کرکے اس کی حمایت سے فیضیاب ہوئی۔
پاکستان کے سماجی ارتقائی عمل میں میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی نئی ٹیکنالوجی نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس میں چند پرانے اداروں کے ساتھ ساتھ درمیانے طبقے کے لوگوں نے بہت ترقی کی ہے۔ آج بہت سے ٹی وی چینل اور ٹیکنالوجی کے کاروبار میں درمیانے طبقے کے سیکڑوں افراد نئی پیدا ہونے والی دولت کے حصہ دار بنے ہیں۔ ذرائع ابلاغ اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری نے درمیانے طبقے کے لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگوں کی قسمت بدل دی ہے اور اب وہ آسودہ حال ہو چکے ہیں۔ غرضیکہ میڈیا بھی ایک بہت بڑی طاقت بن چکا ہے اور وہ بھی ریاستی امور کی ہیئت ترکیبی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ میڈیا نے ریاستی رازداریوں پر مخصوص و محدود حکمران طبقے کی اجارہ داری ختم کرکے اسے عوام تک پہنچا دیا ہے۔ اس لئے اب حکمران طبقہ ڈرائنگ روموں اور محلات میں بیٹھ کر عوام کے خلاف ویسی سازشیں نہیں کر سکتا جس طرح سے وہ ہمیشہ کرتا آیا ہے۔
درمیانے طبقے نے دوسرے بہت سے اداروں میں بھی ترقی کرکے اپنی طاقت کو منوا لیا ہے۔ صنعتی اور کاروباری ایلیٹ کا بھی اثر و رسوخ پہلے سے بہت زیادہ بڑھا ہے مثلاً ہندوستان کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال کرانے میں ملک کے چوٹی کے صنعت کاروں نے پہلی مرتبہ ریاست کو اپنا رویہ بدلنے پر مجبور کیا ہے۔ غرضیکہ معاشرے میں نئے طبقات نے ریاستی پالیسیوں کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان طبقات کا بنیادی معاشی مفاد ملک میں امن اور قانون پر عمل میں ہے۔ ہو سکتا ہے وقتی طور پر ان طبقات کے کچھ حصے مفاد پرستی کے تحت انتہا پسندی، دہشت گردی اور لا قانونیت کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہوں لیکن چونکہ ان کا فطری مفاد اس کے برخلاف ہے اس لئے جاری و ساری ارتقاء کے نتیجے میں یہ امر ناگزیر ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پورا نظام بدل کر راہ راست پر آ سکتا ہے۔
سپریم کورٹ ہو یا الیکشن کمیشن سیاسی سماجی نظام کیلئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ فوری طور پر اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے لیکن انہوں نے پہلی مرتبہ صاف شفاف اور منصفانہ نظام قائم کرنے کا ایجنڈہ معاشرے کے ایجنڈے پر سرفہرست رکھ دیا ہے۔ اس سے پیشتر ان طاقتور اور سنجیدہ فورموں نے کبھی ایسا ایجنڈا ہی پیش نہیں کیا تھا۔ اس وقت الیکشن کمیشن جس دیانتداری سے بدعنوان سیاست دانوں کو میدان سیاست سے نکال کر نسبتاً صاف شفاف لوگوں کو لانے کی کوشش کر رہا ہے، ہو سکتا ہے وہ اس میں سو فیصد کامیاب نہ ہو لیکن وہ مستقبل کیلئے بنیادی معیار کی طرح ضرور ڈال رہا ہے۔ اگر موجودہ کمیشن اپنے مشن میں پوری طرح کامیاب نہیں بھی ہوتا تو آنے والے وقتوں میں عوامی دباوٴ کے تحت اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی سیاست کچھ بھی ہو لیکن انہوں نے درمیانے طبقے کے لوگوں کی مدد سے الیکشن کمیشن کو بہتر قوانین بنانے اور لاگو کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
میڈیا اور دانشوروں کا ایک بہت بڑا حصہ اس بظاہر آہستہ رو ارتقائی عمل سے مطمئن نہیں ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس میں انقلابی مداخلت کے بغیر ملک سدھر نہیں سکتا۔ اس وقت ان کے خیال میں ملک میں فوری الیکشن کی بجائے ایک نگران حکومت بننا چاہئے جو کہ پچھلے پانچ سال میں لوٹ کھسوٹ کرنے والے سیاستدانوں کی گردن ناپے، نظام کی پوری صفائی کرے اور پھر الیکشن کرائے۔ ان کے خیال میں نگران حکومت ایماندار ٹیکنو کریٹس کی ہونا چاہئے، اس کو بنگلہ دیش ماڈل بھی کہا جا رہا ہے۔ ہمارے خیال میں اس طرح سے فطری سماجی ارتقاء کو روکنے سے زیادہ تباہی ہوگی۔
ماضی میں جب بھی مارشل لا نافذ ہوا انہی نام نہاد ایماندار ٹیکنوکریٹوں کی مدد سے حکومتیں چلائی گئیں۔ ان حکومتوں میں نہ تو ٹیکنوکریٹ ایماندار ثابت ہوئے اور نہ ہی نظام میں کوئی بہتری آئی بلکہ معاملات خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔ خود بنگلہ دیش میں نام نہاد احتسابی عمل کے باوجود روایتی سیاسی پارٹیاں (عوامی لیگ وغیرہ) حکومت میں آئیں۔ پاکستان میں بھی اگر نگران حکومت کو طول دیکر احتسابی عمل سے صفائی کرائی گئی تو بدعنوان سیاست دان زیادہ مضبوط ہوں گے۔ حل ایک ہی ہے کہ عوام کو ان بدعنوان سیاست دانوں کو اکھاڑ پھینکنے دیں اور عوام ایسا ہی کریں گے کیونکہ ارتقائی عمل میں وہ اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کو قانون کی حکمرانی چاہئے۔ اس سلسلے میں صبر کی ضرورت ہے، جلد بازی اور غیر ضروری مداخلت ارتقائی عمل کو کئی سال پیچھے دھکیل دے گی۔
تازہ ترین