• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قسمت بھی عجیب چیز ہے۔ خراب ہو جائے تو اچھا بھلا ہیرو ولن بن جاتا ہے۔ وہ جنرل نیازی جس کے نام کے ترانے گائے جاتے تھے۔ اس کا نام گالی بن گیا۔ شہباز شریف جب عمران خان کو گالی دینا چاہتے ہیں تو ذہن میں جنرل نیازی کو لا کر عمران خان کو عمران نیازی کہہ دیتے ہیں۔ اگر کہوں کہ جنرل نیازی بے قصور تھے تو کسی نے میری بات پر یقین نہیں کرنا۔ بلکہ یہ بھی ممکن ہے اِس جرم میں احباب مجھے بھی گالیوں سے سرفراز فرمائیں مگرمیں سچ کہوں گا۔ 

یہ دسمبرکی ایک دھوپ بھری صبح تھی۔ میں اپنے گھر کے باہر سڑک کے کنارے کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ دوسری کرسی خالی پڑی تھی۔ اس سڑک کو بلو خیل روڈ کہتے ہیں۔ اسی سڑک کے آگے تقریباً ایک فرلانگ کے فاصلے پر جنرل نیازی کا گھر تھا۔ وہ پیدل چلتے ہوئے آرہے تھے۔ میرے پاس پہنچے تو میں انہیں اٹھ کر ملا۔ وہ دوسری کرسی پر بیٹھ گئے۔ گپ شپ شروع ہوگئی۔ ہوتے ہوتے ہم ڈھاکے کے پلٹن گرائونڈ تک پہنچ گئے اور وہ بچوں کی طرح ہچکیاں لے کر رونے لگے۔ میں نے انہیں کہا’’حضرت عبداللہ بن زبیرؓاپنی ماں کے پاس گئے اور کہا:میرے بیٹے بھی ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔ جوچند ساتھی باقی رہ گئے ان میں لڑنے کی تاب نہیں اوردشمن کوئی رعایت دینےپرتیار نہیں۔ ماں بولی :عورتوں کی طرح رو نہیں،مردوں کی طرح مقابلہ کر۔ حق پر جان دینا،زندہ رہنے سے ہزار گنا بہتر ہے۔ ابن زبیر نے کہا:ماں مجھے ڈر ہے کہ میرے قتل کے بعد بنو امیہ میری لاش کوخراب کریں گے۔ ماں بولی :ذبح ہو جانے کے بعد بکری کوکھال کھینچنےکی تکلیف نہیں ہوتی۔ جنرل صاحب ! اب رونے کا کیا فائدہ،جہاں آپ نے جان دینا تھی وہاں دی نہیں ‘‘جنرل نیازی کہنے لگے’’میرے ساتھ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ میں مغربی پاکستان کو بچانا چاہتا تھا۔ مجھے جنرل یحییٰ نے فون کر کےکہا تھا کہ اگرتم نے ہتھیار نہ ڈالے تو سمجھو کہ پھر مغربی پاکستان پر بھارتی فوجوں نے قبضہ کرلیا ہے۔ میں نے مغربی پاکستان کو بچانے کےلئے ہتھیار ڈالے۔ میں نے تو آپ لوگوں کی خاطر اپنے منہ پر کالک مل لی تھی۔ مجھے زندگی سے اتنی محبت نہیں تھی کہ میں پلٹن گرائونڈ میں اپنی عزت کا جنازہ نکلتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھتا ‘‘۔

ہائے اُس جنرل نیازی کے نام کی گالی اب عمران خان کو دی جاتی ہے۔ اُس عمران خان کو جس نے ہر میدان میں پاکستان کو فتح سے ہمکنار کیا۔ اب بھی میرا ایمان ہے کہ لٹیرے ناکام ہونگے، بہت جلد پاکستان معاشی اعتبار سے دنیا کا ایک اہم ترین ملک ہوگا۔ ہر رات کی قسمت میں سحر ضرور ہوتی ہے۔ یہ قانونِ خداوند ہے۔ وہ آنکھیں جو یہ خواب دیکھتی ہیں کہ حکومت جا رہی ہے، وہ انتظار کرتے کرتے پتھرا جائیں گی۔ اپوزیشن صرف اتنا چاہتی ہے کہ اس کے کم ہوتے ہوئے سفید خلیے(پلیٹ لیٹس ) پورے ہوجائیں۔ نیب کے موجودہ اور عمران خان کے پرانے وکیل نعیم بخاری نے نون لیگ کو سپریم کورٹ میں علاج بالمثل کے دو انجکشن لگا دیے ہیں۔ دو درخواستیں واپس لے لی گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ہاتھوں کا رعشہ بھی جلد ختم ہوجائے گا۔ مولانا فضل الرحمٰن کے پاس بھی دو تین سال گزارنے کےلئے کافی رقم موجود ہے۔ ساری سازشیں ناکام ہو چکی ہیں۔ پنجاب میں سبطین خان اور علیم خان کو منالیا گیا ہے۔ چوہدری برادران اکیلے رہ گئے ہیں۔ اُس دن نصراللہ دریشک سے ناشتے پر ملاقات ہوئی۔ مشورہ یہی ہے کہ قاف لیگ پی ٹی آئی میں ضم ہوجائے تو شاید گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا مل جائے۔ بہر حال یہ طے ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہی ہیں، وہ پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں جنہوں نےماضی کی طرح تمام اختیارات پرزبردستی قبضہ نہیں کیا۔ بیوروکریسی اپنی جگہ آزاد ہے۔ کابینہ اپنی جگہ۔ ہر وزیر کے پاس اس کی وزارت کے مکمل اختیارات ہیں۔ قانون سازی کا کام اپنی جگہ پر بڑے اچھے انداز میں جاری ہے۔ اسی کو گڈ گورنس کہتے ہیں ۔ جہاں تک چیف سیکرٹری پنجاب کے معاملات کا تعلق ہے تو صرف پنجاب میں ہی نہیں وفاق میں بھی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ایک پیج پر ہونے میں ان کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

علیم خان چوہدری برادران کے ساتھ نہیں تھے۔ راولپنڈی میں لنچ کے بعداُن کے رویے میں تبدیلی آئی تھی۔ جس کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب وہ نیب میں گرفتار تھے۔ پہلی باران کے پروڈکشن آرڈرجاری ہوئے۔ وہ پنجاب اسمبلی آئے۔ چوہدری پرویز الٰہی بڑی محبت سےملے اورکہا کہ ’’آپ جب تک نیب کی تحویل میں ہیں۔ میں اس دن تک اسمبلی کا اجلاس جاری رکھوں گا۔ ہم آپ کو کئی کمیٹیوں کا ممبر بھی بنارہے ہیں تا کہ آپ زیادہ سے زیادہ وقت اسمبلی میں گزار سکیں ‘‘۔ یہ جملے ایسے تھے کہ علیم خان کے دل میں گھر کر گئے۔ سبطین خان کے بھی پرویز الٰہی سے پرانے مراسم ہیں۔ انہیں نیب کی گرفتاری کا بہت قلق ہے۔ پھر انہیں اور علیم خان کو دوبارہ وزارت بھی اسی لئے نہیں دی گئی کہ وہ نیب زدگان ہیں۔ عمران خان تو نیب کے معاملات میںاتنے محتاط ہیں کہ بابر اعوان جو نیب ریفرنس کے سبب مستعفی ہوئے تھے، باعزت بری ہو چکے ہیں مگرابھی خان نے انہیں دوبارہ وزارت نہیں دی۔ علیم خان اور سبطین خان کو اس پر دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہئے۔ وہ لوگ جو حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ جب تک نئی قیادت سامنےنہیں آتی انہیں اِسی تنخواہ پر کام کرنا ہوگا۔ وقت کا پہیہ چوکور نہیں۔ وقت تودریا کے پانی کی طرح واپس نہیں پلٹ سکتا۔ اب عمران خان سے کوئی بہتر آدمی ہوگا تو وزیراعظم بنے گااور اُن سے بہتر تو کجادور دور تک اُن جیسا بھی کوئی نہیں۔ ویرانی ہی ویرانی ہے اور اِس کا سبب طلبہ تنظیموں پر پابندی اور بلدیاتی نظام کی بربادی ہے۔

تازہ ترین