مواقع کے لغوی معنی ہیں،’’وقت یا حالات کا ایک مجموعہ جس سے کچھ کرنا ممکن ہوجاتا ہےـ‘‘۔ لہٰذا اگر ہم اس نظریے کی جانچ کرنا چاہیں کہ آیا آج کی خواتین کو یکساں مواقع مل رہے ہیں تو ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت مردوں کے مقابلے میں ان کے لئے حالات سازگار ہیں یا نہیں؟
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو خواتین ہمیشہ ہی معاشرے میں پسماندہ رہی ہیں، تاہم اب حالات بدل رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ سے زیادہ خواتین کو بااختیار بنانے کی راہ ہموار ہورہی ہے، جس کے اثرات ترقی پذیر ممالک میں بھی دیکھے جارہے ہیں۔ صنفی عدم مساوات، مساوی تنخواہ اور ہراساں کرنے کے معاملات کو حل کرنے کے لئے اب کمپنیاں تیزی سے پختہ پالیسیاں تشکیل دے رہی ہیں۔ یہ پالیسیاں مزید خواتین کو افرادی قوت میں شامل ہونے اور مَردوں کی طرح مساوات کے پیمانے پر کارکردگی دکھانے میں مدد فراہم کریں گی۔
خواتین گذشتہ ادوار کے مقابلے میں اہم ذمہ داریاں نبھانے میں آج زیادہ نمایاں ہوسکتی ہیں، بعض ممالک اور شعبوں میں خواتین مَردوں کےبرابر یا ان سے بھی بہتر تنخواہ حاصل کر رہی ہیں، لیکن اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے کہ آج کی دنیا میں ہر عورت کو یکساں مواقع حاصل ہیں۔
اس منظرنامے کو یقینی بنانے کے لیے مرد اور خواتین سے ایک جیسا سلوک روا رکھا جائے، یہی وہ واحد راستہ ہے جس میں تمام خواتین کو برابری کی بنیاد پر مواقع کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔لیکن فی الحال، یہ منظر نامہ مطلق درست نہیں ہے۔ تمام تر پیش رفت کے باوجود حالیہ ہائی پروفائل معاملات میں گوگل جیسی کمپنی میں بھی امتیازی سلوک عیاں ہے۔
لوگ اب بھی یہ مانتے ہیں کہ عورتیں مختلف طریقوں سے مَردوں کے برابر نہیں ہیں۔ جب خواتین کو مساوی تنخواہ کی طرح ایک خاص حق دیا جاتا ہے ، تو کچھ لوگوں کو پریشانی لاحق ہو جاتی ہے ۔ ایسا منظر نامہ جہاں عورت کو کام کی جگہ یا معاشرے میں مساوی مواقع ملتے ہیں، ایک مرکزی دھارے کا تصور ہونا چاہئے ۔
شیرل سینڈبرگ ، اوپرا ونفری ، جینیٹ یلن اور دیگر بہت سی نامور خواتین اپنی زندگی اور کیریئر میں طاقتور اور قابل احترام مقام پر پہنچ گئیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو مساوی حقوق اور تنخواہ دی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنی استطاعت، ذہانت اور ذمہ داری سے مَردوں کی طرح مساوی طور پر اپنا کردار ادا کرسکیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کی شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق صنفی مساوات کی درجہ بندی میں امریکا بھی نیچے چلا گیا تھا یعنی2006 ء میں 23ویں نمبر پر تھا تو 2016ء میں 45ویں پوزیشن پر چلاگیا تھا۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ اب سائنسدانوں، ماہرین تعلیم ، انجینئرز، ریاضی دانوں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کی نئی نسل کے لیے راہیں ہموار ہورہی ہیں، تاہم اسٹَیم ( یعنی سائنس ، ٹیکنالوجی ، انجینئرنگ اور میتھ میٹکس) کے شعبوں میں اپنا کیریئر بنانے کی خواہش رکھنے والی خواتین کی تعداد ابھی بھی مردوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس فرق کو کم کرنے کیلئے بہت سے ماہرین اقتصادیات، ماہرین تعلیم اور عالمی رہنما کاوشیں کررہے ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ لڑکیاں اسٹَیم ایجوکیشن سے دور کیوں ہوجاتی ہیں؟ امریکی ریاست انڈیانا میں واقع انڈیانا یونیورسٹی کے اسٹیم ایجوکیشن انوویشن اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SEIRI) کی بانی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور کیمسٹری پروفیسر پرتھبا ورما کے مطابق آج بھی لڑکیوں سے یہ کہا جاتاہے کہ سائنس ان کے بس کی بات نہیں جبکہ کم آمدنی والے گھروں کی بچیوں کا سائنسی مضامین اختیار کرنا اچنبھے کی بات سمجھا جاتاہے۔ ہمیں اس طرز عمل کو ترک کرنا چاہئے۔
اوائل عمری سے ہی لڑکیوں کی سائنس، کامرس اور تخلیقی شعبوں میں حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے اور جب وہ اپنے کیریئر کے نمایاں مقام پر پہنچ رہی ہوں تو انہیں بااختیار بنانے اور بڑے خواب دیکھنے کے حوالے سے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، خواتین خود ہی یہ ثابت کرسکتی ہیں کہ وہ مساوات کے لائق ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے اور آنے والی نسلوں کے لئے حالات کو درست بنانے کیلئےیہ بالکل موزوں وقت ہے۔
یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ جن شعبوں میں ٹیکنالوجی اپنا کردار ادا کرتی ہے، وہ ان شعبوں کو بدل کر رکھ دیتی ہے ۔ ٹیکنالوجی نے کمیونیکیشن کی رفتار تیز کردی ہے اور گھریلو کام سے لے کر دفتری فرائض تک ہمیں ہر وقت کمپیوٹر یا گیجٹس کی ضرورت پڑتی ہے، اس صورتحال میں بچیوں کی تعلیم میں بھی ٹیکنالوجی کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے اور زندگی کے ہرموڑ پر، ہر فیلڈ میں، چاہے وہ صنعتیں ہوں یا تعلیمی ادارے، ٹیکنالوجی ہمارے درمیان کھڑی ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی کی دوڑ میں اگر خواتین پیچھے رہ جائیں اور اپنا کردار ادا نہ کرسکیں تو معاشرے کیلئے یہ بڑے نقصان کا باعث ہوگا۔