• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قسط 1

یہ ایک بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے۔ ایک تھا شکاری، لیکن، وہ دوسرے شکاریوں کی طرح نہیں تھا۔ اس نے اپنی پوری زندگی میں کسی جانور کو نہیں مارا تھا۔ وہ کسی جان دار کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھا ہی نہیں سکتا تھا۔ بس اس کے پاس ایک جال تھا اور ایک بانسری، جس پر وہ بہت سریلی دھنیں بجایا کرتا تھا۔ وہ روزانہ جنگل میں جاتا، جال بچھاتا اور جال سے کچھ دور جا کر بانسری بجانے لگتا۔ اس کی بانسری کی دل کش آواز سن کر پرندے اڑے چلے آتے۔ وہ انتظار کرتا اور جیسے ہی کوئی پرندہ اس کے جال کے پاس آتا، وہ رسی کھینچ کر اسے جال میں بند کر لیتا، پھر وہ اس پرندے کو دانہ کھلاتا، ان کا خیال رکھتا اور ان کی پیاری پیاری آوازیں سنتا۔ 

جب کبھی اسے پیسوں کی ضرورت پڑتی تو وہ ان میں سے دو تین پرندے بیچ دیتا۔پرندوں کے اس شکاری کا ایک بیٹا تھا، جس کا نام بہزاد تھا۔ بہزاد ابھی چھوٹا ہی تھا کہ شکاری بیمار پڑا اور اس کا انتقال ہو گیا۔ بہزاد اور اس کی امی کے پاس جو پیسے تھے، وہ جلد ہی ختم ہو گئے اور ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ رہا۔ زندگی بڑی مشکل سے گزرنے لگی۔ 

بہزاد چھوٹا تھا، مگر بہت ہمت اور صبر والا تھا۔ کام کاج میں اپنی امی کی مدد کرتا اور جو وقت ملتا، اس میں وہ جنگل چلا جاتا، جہاں اس کے ابو پرندے پکڑا کرتے تھے۔آخر ایک روز اس نے اپنی ماں سے کہا: "امی اب میں بچہ نہیں رہا۔ پندرہ سال کا ہو گیا ہوں۔ ابو کے بعد آپ نے بہت محنت کی ہے۔ اب آپ مجھے ابو کا جال اور بانسری لا دیجئے۔ کل سے میں بھی جنگل جا کر پرندے پکڑا کروں گا۔" اس کی امی جانتی تھی کہ وہ بڑا بہادر لڑکا ہے اور جنگل کا چپا چپا اس نے دیکھ رکھا ہے، اس لیے انھوں نے اسے بانسری اور جال لا کر دے دیا۔

اگلی صبح بہزاد جلدی اٹھ گیا اور جنگل کو چلا۔ نہ اسے کسی چیز کا ڈر تھا نہ یہ خیال کہ راستہ بھول جاؤں گا، کیوں کہ وہ جنگل کے ایک ایک درخت کو پہچانتا تھا۔

گھنے جنگل میں دور تک نکل گیا اور بانسری بجانے لگا، لیکن پورے دن میں ایک پرندہ بھی اس کے پاس نہ آیا۔ آخر جنگل میں شام کا اندھیرا پھیلنے لگا تو وہ تھکا ماندہ خالی ہاتھ گھر لوٹ آیا۔ اس کی امی جانتی تھیں کہ یہی ہو گا۔ پرندے پکڑنا اتنا آسان نہیں ہے کہ کوئی ایک ہی دن میں یہ کام سیکھ لے، انھوں نے بیٹے کو تسلی دی اور سمجھایا: "بیٹے! تمھارے ابو بھی فوراً پرندے پکڑنے میں ماہر نہیں ہو گئے تھے۔ ابھی تمھیں اس کام کو سیکھنے میں بہت محنت کرنی پڑے گی۔"

بہزاد ہمت ہارنے والا نہیں تھا۔ اس نے مستقل مزاجی سے یہ کام جاری رکھا۔ آخر آہستہ آہستہ اسے بانسری پر خوبصورت دھنیں بجانا، اپنے آپ کو پرندوں سے چھپانا اور بغیر ہلے جلے صبر سے دیر تک بیٹھنا آ گیا اور پرندے اس کے جل میں پھنسنے لگے۔ ایک دن اس کے جال میں ایک بہت عجیب اور خوب صورت پرندہ پھنس گیا۔ اس کے پر سات رنگوں کے تھے۔ وہ خوشی خوشی گھر آیا اور اس پرندے کو ایک پنجرے میں بند کر دیا۔ اگلی صبح جب وہ اٹھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پرندے نے ایک خوبصورت انڈا دیا تھا۔ وہ انڈا بھی سات رنگوں کا تھا۔

بہزاد نے سوچا کہ یہ انڈا بازار میں جا کر بیچ دینا چاہیے، تاکہ کچھ پیسے ہاتھ لگیں۔ جب وہ انڈا لے کر بازار پہنچا تو اسے دکان دار نے دیکھ لیا۔۔ یہ دکان دار بہت چالاک اور لالچی تھا۔ اس کا کام ہی غریب لوگوں کو دھوکا دینا اور سستی چیزیں مہنگی بیچنا تھا۔ بہزاد کے پاتھ میں رنگین انڈا دیکھتے ہی اس نے فوراً آواز دی: "اے سنو! کیا یہ انڈا بیچتے ہو؟ میں اسے خریدتا ہوں۔"

بہزاد جانتا تھا کہ وہ دکان دار برا آدمی ہے۔ اس کی چالاکی اور لالچ دیکھ کر بہزاد نے کہا: "ہاں، دس روپے کا ہے!" بہزاد کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ چالاک دکاندار نے اس انڈے کی قیمت کم کرانے کی کوشش نہیں کی اور اسے دس روپے دے کر انڈا لے لیا۔ بہزاد نے بازار سے سودا خریدا اور گھر آ گیا۔ اگلی صبح اس نے دیکھا کہ پرندے نے پھر ایک ویسا ہی رنگین انڈا دیا ہے۔ یہ انڈا بھی اس نے اس چالاک دکان دار کو بیچ دیا۔ اس طرح وہ پرندا روزانہ ایک خوبصورت اور رنگین انڈا دیتا اور بہزاد اسے بیچ آتا اور یوں ماں بیٹے مزے سے گزر بسر کرنے لگے۔

ایک دن بہزاد کو خیال آیا کہ یہ چالاک دکان دار اتنا مہنگا انڈا خرید کر کیا کرتا ہے۔ ضرور اسے بہت زیادہ قیمت پر آگے بیچتا ہو گا۔۔ یہ سوچ کر اس نے ایک دن دکان دار کا پیچھا کیا۔ دکان دار انڈا خرید کر محل پہنچا اور بہزاد سمجھ گیا کہ وہ دکان دار اس سے روزانہ انڈا خرید کر بادشاہ کو مہنگے داموں بیچ آتا ہے۔ بہزاد نے سوچا کہ کیوں نہ میں خود انڈا لے کر بادشاہ کے پاس جاؤں اور زیادہ رقم پاؤں۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ بادشاہ نے اسے ایک انڈے کے سو روپے دیے۔ جب چالاک دکان دار نے دیکھا کہ بہزاد اب اسے انڈے نہیں بیچتا، بلکہ خود محل میں جا کر بادشاہ کو بیچ آتا ہے تو اسے بڑا غصہ آیا۔

بہزاد کو سبق سکھانے کے لیے وہ ایک دن بادشاہ کے پاس گیا اور کہا،"بادشاہ سلامت! آپ بہزاد سے اتنا مہنگا انڈا کیوں خریدتے ہیں؟ یہ انڈے تو آپ کو بالکل مفت میں مل سکتے ہیں۔ بہزاد کے پاس ایک عجیب اور خوب صورت پرندہ ہے، جو یہ انڈے دیتا ہے۔ آپ اس سے یہ پرندہ چھین لیجیئے۔ آپ کے پاس انڈہ اور پرندہ مفت میں ہوں گے۔"

بادشاہ نے بہزاد کو حکم دیا کہ پرندہ فوراً لے آؤ۔ بہزاد سمجھ گیا کہ یہ چالاک دکان دار کی شرارت ہے، کیوں کہ بادشاہ اتنا بےوقوف ہے کہ وہ کبھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ انڈے کہاں سے آتے ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین