• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے چند دنوں سے ملک کے مختلف حصوں میں بہت سے طلبہ اور کئی طلبہ تنظیموں کی جانب سے اسٹوڈنٹس یونینوں کی بحالی کے بارے میں مظاہرے اور جلسے اور جلوس ہوئے ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے بھی یونیورسٹیوں میں طلبہ یونینز کی بحالی کا عندیہ دیا ہے۔ عمران خان نے کہا ’’یونیورسٹیاں مستقبل کے لیڈرز کو پروان چڑھاتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی یونیورسٹیز میں یونینز پُرتشدد بن چکی ہیں۔ پُرتشدد یونینز کیمپس کا ماحول تباہ کرتی ہیں۔ طلبہ یونینز کی بحالی کیلئے جامع ضابطہ اخلاق مرتب کریں گے۔ ضابطہ اخلاق کیلئے بین الاقوامی جامعات کے تجربے سے استفادہ کریں گے‘‘۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسٹوڈنٹس یونینز نے پاکستانی سیاست کو قیادت فراہم کی اور بیشمار نام سیاست میں ایسے ہیں جن لوگوں نے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی اسٹوڈنٹس یونینز اور ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ دوسری جانب کھیلوں کی دنیا میں بھی بیشمار ایسے نام ہیں جنہوں نے اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے مختلف کھیلوں میں حصہ لیا اور بعد میں قومی اور بین الاقوامی کھلاڑی کے طور پر اپنے آپ کو منوایا۔ اسٹوڈنٹس یونینز نے ماضی میں ایک مدت تک تو بڑا مثبت کردار ادا کیا لیکن جب اسٹوڈنٹس یونینز میں بعض سیاسی جماعتوں نے دخل اندازی شروع کی تو حالات تبدیل ہو گئے۔ ہم خود بھی کسی زمانے میں اسٹوڈنٹس یونین کے کونسلر رہے ہیں بلکہ گورنمنٹ کالج لاہور (اب یونیورسٹی) کی پندرہ سوسائٹیوں کے صدر، سیکریٹری، دیگر عہدیدار اور ’’راوی‘‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی رہے ہیں۔ گورنمنٹ کالج کے اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن میں صرف وہ اسٹوڈنٹس حصہ لے سکتے تھے جو تعلیمی طور پر اچھے ریکارڈ کے مالک ہوتے تھے بلکہ کسی زمانے میں یونین کے صدر اور سیکریٹری کے امیدوار کیلئے یہ لازمی ہوتا تھا کہ وہ کسی امتحان میں فیل نہ ہوا ہو اور اس کے لیکچر بھی پورے ہوں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ صدر اور سیکریٹری کے امیدوار جی سی کے اوپن ایئر تھیٹر میں اکٹھے کھڑے ہوکر تقریر کرتے تھے اور تقریباً وہیں یہ فیصلہ ہو جاتا تھا کہ کونسا امیدوار بہتر ہے۔ اسٹوڈنٹس یونینز پر جنرل ضیاء الحق نے پابندی عائد کی تھی اوراس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ 1984ء تک ایک عجیب روایت چل پڑی تھی کہ اسٹوڈنٹس یونینز کے الیکشن کے دنوں میں کوئی نہ کوئی طالبعلم ضرور قتل ہوتا تھا اور لڑائی جھگڑا اور مار کٹائی تو عام بات ہو چکی تھی، پھر بعض سیاسی جماعتوں نے مختلف تعلیمی اداروں میں اپنی ذیلی تنظیمیں بھی بنا رکھی تھیں۔ امریکہ اور برطانیہ میں کسی سیاسی جماعت کی ذیلی تنظیم نہیں جو تعلیمی اداروں میں کام کرے۔ اس کے علاوہ بعض تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹس یونینز کے عہدیداروں نے اساتذہ کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔ چنانچہ 1984ء میں ضیاء الحق کی حکومت نے طلبہ یونینز پر پابندی عائد کر دی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ طلبہ یونینز نے جمہوری حکومتوں کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ طلبہ یونینز نے اپنے مخالف طلبہ کو مارا پیٹا اور انہیں مختلف حربوں سے تنگ بھی کیا۔ طلبہ یونینز پر پابندی کے بعد بعض گرلز کالجز نے اپنے ہاں اسٹوڈنٹس کونسلز بنا دیں۔ ان اسٹوڈنٹس کونسلوں نے بڑے احسن انداز میں کام کیا اور کر رہی ہیں، مثلاً کنیرڈ کالج میں آج بھی اسٹوڈنٹس کونسل بڑے احسن انداز میں کام کر رہی ہے۔ ان کی ہیڈ گرل طالبات کے مسائل کو انتظامیہ کے ساتھ حل کروانے میں ایک پُل کا کام دیتی ہے۔ وہاں آج تک کبھی کسی الیکشن میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس زمانے میں اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن ہوا کرتے تھے تب بھی کسی گرلز کالج میں لڑائی جھگڑا نہ ہوا جبکہ اس کے مقابلے میں بوائز کالجز میں جھگڑا اور مار پیٹ عام بات تھی۔ وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ اسٹوڈنٹس یونینز کے الیکشنوں کے حوالے سے کوئی ضابطہ مرتب کریں گے، اس سلسلے میں ہماری رائے ہے کہ اسٹوڈنٹس یونینز کے الیکشن میں صرف ان طلبہ کو اجازت ملنی چاہئے جو تعلیمی طور پر اعلیٰ اور شاندار ریکارڈ رکھتے ہوں، جن کی حاضریاں بھی 90فیصد سے اوپر ہوں اور کسی سیاسی جماعت اور کسی سیاسی جماعت کی ذیلی تنظیم سے تعلق نہ ہو۔ ہماری رائے سے ہو سکتا ہے کہ لوگ اتفاق نہ کریں لیکن یہ بات سچ ہے کہ اسٹوڈنٹس یونینز کے آنے کے بعد تعلیمی اداروں کا ماحول ضرور متاثر ہوگا۔ اگر یونیورسٹیوں اور کالجوں کی انتظامیہ اسٹوڈنٹس کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو بروقت احسن طریقے سے حل کر دے تو پھر کسی یونین کی ضرورت نہیں رہتی۔ دوسرا، اسٹوڈنٹس یونین کا کام یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ہوسٹلوں کے کمروں کی الاٹمنٹ کریں، طلبہ کے لیکچر پورے کروائیں، مضامین کی تبدیلی کیلئے اساتذہ پر دبائو ڈالیں اور تعلیمی اداروں میں سیاسی تقریبات کروائیں۔ اسٹوڈنٹس یونین کا یہ کام ہونا چاہئے کہ وہ تعلیمی اداروں میں ہم نصابی اور کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ دیں۔ اسٹوڈنٹس کے مابین بین الکلیاتی پروگرام کروائیں اور یونین میں طالبات کو بھی مساوی نمائندگی دیں، تعلیمی اداروں میں گروہ بندی کو ختم کریں۔ اگر حکومت اسٹوڈنٹس یونینز کے متبادل اسٹوڈنٹس کونسلز بنا دے تو وہ بھی ایک اچھا قدم ہے۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ بعض اوقات اساتذہ بھی اسٹوڈنٹس یونین کے عہدیداران کے ساتھ مل کر اپنے مختلف کام کرواتے ہیں اور بعض اساتذہ ان کے زیر اثر اور زیر بار رہتے ہیں۔ اس طرح لائق اور ایسے اسٹوڈنٹس جن کی کوئی واقفیت نہیں ہوتی، کی حق تلفی ہوتی ہے۔ اسٹوڈنٹس یونین کا بنیادی کام طلبہ کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا، ان کے اندر تحریر و تقریر کے جذبے کو ابھارنا اور تعلیمی اداروں میں مثبت سرگرمیوں کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ ہمارے خیال میں اس ضمن میں اسٹوڈنٹس کونسلز زیادہ بہتر ثابت ہوں گی۔

تازہ ترین