• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا طالبان مذاکرات پھر شروع، زلمے خلیل زاد کی دوحہ میں طالبان وفد سے ملاقات، معاہدے پر دستخط کیلئے کوششیں کی جائیں گی، طالبان نے تصدیق کردی

کراچی، دوحہ (نیوز ڈیسک، اے ایف پی) امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہوگئے، افغانستان کے لیے امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان وفد سے ملاقات کی ہے۔

امریکی خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکا نے اپنے بیان میں کہا کہ مذاکرات میں ابتدائی طور پر تشدد میں کمی اور مستقل جنگ بندی کے لیے طالبان کو قائل کرنے پر توجہ دی جائے گی اور زلمے خلیل زاد افغانستان کے اندر فریقین (طالبان اور کابل حکومت ) میں براہ راست مذاکرات کی کوشش بھی کررہے ہیں۔

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے مذاکرات کی بحالی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ بات چیت کا آغاز وہیں سے ہوا ہے جہاں سے ختم ہوئے تھے ، اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر انہوں نے بتایا کہ مذاکرات میں معاہدے پر دستخط اور اس سے متعلق معاملات پر بات چیت کی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ مذاکرات اتوار کے روز سےدوبارہ شروع ہوں گے ، سہیل شاہین نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ طالبان کے ڈپٹی لیڈر کے بھائی انس حقانی نے بھی مذاکرات میں شرکت کی ،انس حقانی کو گزشتہ ماہ طالبان اور امریکا کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں امریکی قید سے رہا کیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق طالبان کے ساتھ ملاقات قطر میں ہوئی جہاں طالبان کا سیاسی دفتر بھی قائم ہے جبکہ اس سے قبل بھی افغانستان کے دارالحکومت کابل میں زلمے خلیل زاد نے افغان صدر اشرف غنی سمیت دیگر سے مذاکرات کے کئی دور ہوئے تھے۔

زلمے خلیل زاد کی جانب سے افغان طالبان اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کی بحالی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان کے اچانک دورے کے بعد شروع کیے گئے ہیں جہاں ٹرمپ نے کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات بحال ہوں گے۔

طالبان کے ساتھ مذاکرات میں امریکی نمائندہ خصوصی تشدد میں کمی پر زور دے رہے ہیں دوسری جانب امریکی فوج نے اپنی معمول کی رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکی فضائی کارروائی میں 37 طالبان جنگجووں کو نشانہ بنایا گیا۔

امریکی فوج کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کی نے انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی میں دیگر 22 افراد کو ہلاک کردیا ہے۔طالبان بھی افغانستان بھر میں قائم فوجی پوسٹس پر مسلسل حملے کررہے ہیں اور رپورٹس کے مطابق افغانستان کے آدھے حصے پر ان کا قبضہ ہے۔

افغانستان میں تشدد کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے 12ہزار فوجیوں کو واپس بلانے کی خواہش ظاہر کرچکے ہیں تاہم انہوں نے افغانستان کی پولیس اور فوج کو مضبوط کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا تھا۔

افغان حکومت داخلی طور پر بھی اختلافات کا شکار ہے جہاں 2014 میں انتخابات کے بعد امریکا کی مداخلت سے اشرف غنی اور عبداللہ اور دیگر کے درمیان حکومتی عہدے تقسیم کیے گئے تھے لیکن رواں برس منعقدہ انتخابات میں ایک مرتبہ پھر ان کے آپس میں اختلافات سامنے آچکے ہیں۔

عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی اپنے طور پر کامیابی کا اعلان کرچکے ہیں جبکہ انتخابی نتائج کا اعلان تین مہینوں کے بعد بھی نہیں ہوسکا۔یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں برس ستمبر میں افغانستان میں طالبان کی کارروائی میں امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد اچانک طے شدہ مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کردیا تھا حالانکہ زلمے خلیل اور طالبان کے درمیان مذاکرات حتمی مرحلے میں داخل ہوچکے تھے۔

زلمے خلیل زاد نے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات کی کوشش بھی کی تھی اور ایک دور منعقدہ ہوا تھا جس کے بعد طالبان نے اشرف غنی کی حکومت کو امریکی کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

تازہ ترین