• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طلحہٰ یاسر، لاہور

’’اری نگوڑی… اللہ ماری… کہاں رکھ دیا ہے میرا شناختی کارڈ؟ کلموہی، جنم جلی کہیں کی ، یہ میری طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کیا دیکھ رہی ہے؟ ڈھونڈ اچھی طرح سے کم بخت… اگر نہ ملا شناختی کارڈ، تو تیری ٹانگیں توڑ دوں گی۔ ہائے، میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے۔ مولوی کہہ رہا تھا کہ سیٹھ صاحب کا حکم ہے، شناختی کارڈ کے بغیر کسی کو ایک دمڑی بھی نہیں ملے گی، پورے پانچ ہزار روپے ملنے تھے اور رمضان کا راشن الگ، یہ سب تیری نحوست کا کیادھرا ہے ۔

جب سے تو میرے پیش پڑی ہے، میں نے ایک سکھ کا سانس نہیں لیا ہے۔ اچھا،میں جاتی ہوں ، سیٹھ جی کا منّت ترلا کرنے، شاید انہیں مجھ بیوہ اورتجھ یتیم پر ترس آجائے۔ تُو جب تک ڈھونڈتی رہ۔‘‘ماں کے جانے کے بعد جیسے ہی ر انی نے بستر جھاڑا تو سرہانے کے غلاف سے شناختی کارڈ نکل کر زمین پر آگرا ۔اس بے رحمانہ’’ ڈومیسٹک ٹرائل‘‘ کی وجہ سے رانی کےسُتے ہوئے بے رونق چہرے پرآن ہی آن میں بہار آگئی ۔ـ’’ـــــ امّاں! ـ یہ لے اپنا شناختی کارڈ‘‘۔ 

امّاں کے گھر داخل ہوتے ہی رانی نے بڑی بے تابی سے، مصنوعی بے رخی کے ساتھ کہا ۔ ’’ ماں صدقے، ماںواری…میری شہزادی، میری رانی…‘‘ امّاں بلائیں لیتے ہوئے عجلت سے مسجد کی جانب دوڑی۔اوررانی بے چاری خلا میں گھورتے سوچنے لگی ،کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ہر لحاظ سے معتبر ہیں، جو شرفِ انسانی پر فائز ہوتے ہیں۔ وہ بے چاری تو صرف نام کی رانی تھی۔ پُرنم آنکھوں سے وہ فیصلہ نہیں کرپائی تھی کہ اس کی سگی ماں کی زندگی میں اس کی اہمیت زیادہ ہےیا’’ شناختی کارڈ ‘‘کی۔

تازہ ترین